للکار تا ہوا چیئرمین ۔ بیرگیر بلوچ

257

للکار تا ہوا چیئرمین

تحریر۔ بیرگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سنگت چیئرمین جب میں آپ کے لیئے لکھنا چاہا، کافی دیر تلک پیڑ پر ٹیک لگائے آپ کے اس تصویر کو تکتا رہا مگر لفظوں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
رک کر سوچو سوچ کر لفظوں کی تہہ سے
انمول لفظ چنو پھر لکھو
تم کسی کتابی، خیالی، یا عام کردار کو نہیں
ایک نڈر بہادر دلیر ہستی فتح عرف چیئرمین کے متعلق لکھ رہے ہو
جس نی تاریخ رقم کردی ہے
وہ جو مخلص، ایمانداری، محنت، خواری، مشکلات، مصیبتیں
سہہ کر فتح سے چیئرمین بنا
وہ جو دشمن کے سینوں میں دھکتا آگ بنا رہا
وہ جو ہواؤں کا رخ پنکھوں سے بدل کر
دشمن کے حصے میں تپتی آگ کو چنگاری بخشتا رہا
وہ امر ہے، وہ فنا ہے، اپنے بعد بھی پہلے کی طرح وہی اسی بولان میں اس سنگت میں جو دشمن کے مورچوں میں گھس کر انکو نیست نابود کرتا ہوا آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا رہا ہے۔
سوچو اس متعلق وہ نوجوان بیان ہو پائے گا؟
اس ساتھی، اس سپاہی، اس کمانڈر کو لفظوں میں بیان کر پاؤ گے؟
مگر کہاں ہوپاتے ہیں
ایسے سنگت لفظوں میں بیان۔

وہ عظیم تر ہیں اس لفظ عظیم سے بھی بڑھ کر
وہ اس قدر بہادر، نڈر، مہربان ہوتے ہیں کہ انکے قصے
انکے حیات میں ہی جنگ کے فتح کا امید بنتے ہیں
انکے الفاظ جو کبھی بھی کہیں بھی لڑکھڑاتے قدموں کو توانائی بخشے
انکی بہادری، انکی سنگتی تمہیں لڑنے کا حوصلہ بخشتی ہے۔
انکا رویہ، انکا مہربان لہجہ، انکا ساتھ، تمہیں سکھاتا ہے کہ
کس قدر خوبصورت مقصد سے جڑا ہوں
جہاں چیئرمین جیسے سنگت تمہارے ساتھ کھڑے ہوں، جو تمہارے لہو کا وارث ہو
وہاں تمہیں بس اتنا یاد رہتا ہے کہ مجھے اس لمحے تک اس آخری گولی تک ان ساتھیوں کے ہمگام ہونا ہے
جو ہر ہرس، لالچ، انا و بغض سے پاک ہوکر محنت و مخلص نظریئے پر ڈٹے ہوئے ہیں، جنکا شیوہ دشمن کے قلعے کو زمین بوس کرنا ہو۔
جنکی دھاڑ سے لرزتی، کانپتی دشمن اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو، جو چلے تو دیوانہ وار کارواں بنتے جائے جو رک جائے تو تاریخ لکھ جائیں۔
وہ عاشق وطن ہی کیا جو عشق میں دیوانہ وار نہ چلے ایسے دیوانوں کا خوبصورت چہرہ سنگت چیئرمین ہے، جسے بس
عشقِ وطن کے سوا کچھ یاد نہیں۔
یہی عاشقانِ مادر ہی ہوتے ہیں جو دشمن کی گولی کو سینے میں پیوست ہوتے دیکھ کر بھی دشمن کو ناکام کردیتے ہیں۔

ہماری کامیابی ہمارے ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے سے ہے
چیئرمین جیسے سنگتوں سے ہی ایسے بھروسے بنتے ہیں کہ ہاں
میرا چنا ہوا رستہ میرا فیصلہ حقیقی لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے
جنہیں بس اتنا یاد ہے کہ ہر آسائش و آسودگی سے بڑھ کر میرے لیئے میرا جہد میرا مقصد آزاد ریاست آزاد بلوچستان ہے
تب ہی تو ایسے ساتھیوں کے ہمرا جنگ بس لمحہ بھر کا درد محسوس ہوتا ہے اور پھر وہی درد چاندنی رات میں سنگتوں کے محفل کی قہقہوں میں تسکین بھرا مرہم بن جاتا ہے۔
چیئرمین جیسے سنگتوں کو بیان نہیں کیا جا سکتا
ہاں انہیں بس جیا جا سکتا ہے، انکے اسی روپ میں
جو انہوں نے چنا اپنے مادر وطن کی آجوئی کی خاطر

انہیں بس محسوس کیا جا سکتا ہے، بولان کی چٹانوں پر
انہیں بس لڑتے دیکھا جا سکتا ہے، دشمن کے مورچوں میں گھس کر
انکا بس قہقہ سنا جا سکتا ہے، ناگاھو کے بہتے چشموں سے
انکے محفل کا ساتھی بناجا سکتا ہیں سارو کی چاندنی رات میں
وہ جیتے ہیں اس وقت تلک
جس تلک کا انہوں نے وعدہ کیا تھا
اس آجوئی تک انکے بعد انکا بہتا لہو رہنمائی کرتا رہے گا
ان راہوں کا جو بولان سے ہوتے ہوئے
دشمن کے مورچوں کو نیست کرنے کے لیے نکلتے ہیں
اس آخری گولی تک جب ساتھیوں کو نکالنے کا فرض انجام دیتے ہوئے
دشمن کو شکست دے کر خود ہمیشہ کے لیے
وطن مادر کی آغوش میں آسودہ خاک ہوجائیں
چیئرمین ملتا رہے گا، بولان سے خاران تک ہر اس گواڑخ کے داستان میں
جس کے تر لبوں کی خاطر چیئرمین نے لہو کے ہر اک قطرے کو بہانے سے پہلے ان پر پڑے پلیت دشمن کے پیروں کو زمین سے اکھاڑ پھینک کر انہیں بھاگ جانے پر مجبور کردیا
چیئرمین جی رہا ہے، مسکرا رہا ہے، دیکھ رہا ہے
للکار تا ہوا دشمن پر وار کر رہا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔