طالبان مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل کے مواقع حاصل کرے- امریکہ ،پاکستان

207

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات پر مذاکرات کا دور بغیر کسی ٹھوس نتیجے کے ختم ہوگیا، تاہم دونوں ممالک نے افغان امن عمل میں طالبان کے شامل ہونے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ امریکا نے اپنے ریفارم ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ہوا تھا، جہاں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے امریکا اور پاکستان کے درمیان خراب ہونے تعلقات کی دوبارہ ’بحالی‘ کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

اس مذاکرات کا دوسرا دور واشنگٹن میں ہوا، جہاں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے امریکی ہم منصب سے دوبارہ ملاقات کی، ملاقات کے دوران سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور امریکا میں پاکستانی سفیر علی جہانگیر صدیقی بھی موجود تھے۔

ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ ’دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ افغان طالبان کے پاس یہی وقت ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل کے مواقع حاصل کرے‘۔

دوسری جانب شاہ محمود قریشی نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی، اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان، افغانستان میں افغان قیادت کی امن اور مصالحت کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا‘۔

دونوں ملاقاتوں کے بعد بیانات واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری کیے گئے، جبکہ امریکا کی طرف سے ان مذاکرات کے بارے میں کوئی موقف نہیں دیا گیا۔

سفارتخانے کے بیانات میں کہا گیا کہ شاہ محمود قریشی کی مائیک پومپیو اور جان بولٹن سے ملاقاتیں 40، 40 منٹ پر محیط تھیں جن میں افغانستان کے مسئلے پر زیادہ توجہ دی گئی، جبکہ دیگر معاملات میں پاک – بھارت تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی اور مائیک پومپیو نے ’باہمی دلچسپی کے دوطرفہ امور اور علاقائی معاملات پر تفصیلی بات چیت کی‘۔

مائیک پومپیو کی دعوت پر واشنگٹن کا دورہ کرنے والے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان قریبی تعلقات ہمیشہ باہمی مفاد اور جنوبی ایشیا میں استحکام کا ایک عنصر ہے۔

انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب کو بتایا کہ ’ایک قدم آگے بڑھ کر مذاکرات کے لیے وسیع اور تشکیل شدہ فریم ورک دونوں ممالک کے لیے بہتر ہوگا‘۔

ملاقات کے دوران شاہ محمود قریشی نے حکومت کے ترقیاتی اور عوامی ایجنڈے پر بھی روشنی ڈالی، جو پاکستان کے پڑوسی ملک میں امن اور سیکیورٹی کے لیے ضروری ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور امریکا نے افغانستان اور خطے میں وسیع پیمانے پر امن اور استحکام کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا۔

بیان کے مطابق ’شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں سیاسی حل کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا اور کہا کہ طاقت کے استعمال سے مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکامی ہوئی تھی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں امن پاکستان اور امریکا دونوں کی اولین ترجیح ہے لیکن یہ خواہش جموں و کشمیر کے بنیادی تنازع سمیت تمام تنازعات کے حل تک مکمل نہیں ہوسکتی۔

بیان کے مطابق ملاقات کے حوالے سے مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے ریفارم ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے افغانستان میں سیاسی مصالحت اور پڑوسی ملک میں امن کی کوششوں کے لیے پاکستان کی حمایت کو سراہا۔

قبل ازیں جان بولٹن سے ملاقات کے بارے میں سفارتخانے نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی اور علاقائی مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔

ملاقات میں جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

وزیر خارجہ نے ملاقات میں پاکستانی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ یہ ماننا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔

انہوں نے افغانستان میں قومی اتحادی حکومت سے پاکستان کے روابط کی مثبت کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان، پاکستان ایکشن پلان برائے امن و استحکام (اے پی اے پی پی ایس) دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے میں سب سے موثر طریقہ کار ہے۔

جنوبی ایشیا میں امن کے حصول کے تناظر میں وزیر خارجہ نے امریکی حکام کو بھارت کے جارحانہ عزائم کے بارے میں بھی بتایا۔

انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے امن مذاکرات کے آغاز کے پیغام کو بھارتی حکومت نے رد کیا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان، مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات چاہتا ہے۔