شہید خمار جان ایک انقلابی نوجوان – مختار بلوچ

462

شہید خمار جان ایک انقلابی نوجوان

مختار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں واحد سچائی موت ہے، اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اگرکسی نے اس دنیا ِفانی میں قدم رکھا ہے لازم اسے ایک نہ ایک دن ضرور اس فانیِ دنیا کو ہمیشہ کے لئے رخصت کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ جو بھی ہو امیر ہو غریب سرمایہ دار یا اُجارہ دار وہ موت کی جنگ میں ضرور ہار مانتے ہیں ـــ

اس دنیا میں ہمیں ایسے انسان بھی ملتے ہیں، جو موت کی فطرت سے نہیں بچ سکتے ہیں. لیکن وہ دنیا میں اپنی زندگی کے اچھے کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ دنیا میں امر رہ جاتے ہیں، اپنے کارناموں کی وجہ سے وہ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں. اپنے لئے مقام بناکر زندہ ہوتے ہیں وہ عظیم ہوتے ہیں۔

ان عظیم شخصیات میں سے ایک کے بارے میں کچھ لفظوں کو قلمبند کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، ہو سکتا ہے میرے یہ چند الفاظ اُس عظیم شخص کے قربانیوں کے ساتھ انصاف نہ کریں. ویسے میں ایک اچھا لکھاری نہیں ہوں، ہوسکتا ہےمیرے یہ چند الفاظ اس عظیم کردار کے مالک کے قربانیوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔

میں بحیثیت ایک ادنیٰ سی سیاسی کارکن خود اپنے ذہن کو مطمئین کرنے کیلئے کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں ـ وہ عظیم کردار کے مالک شہید خمار جان عرفِ سالار جان ہیں۔ شہید نے 15 مارچ 1993 کو جھاو کے ایگ گاؤں کوہڑو میں محمد اسحاق کے گھر میں آنکھ کھولی۔

سالار جان نے اپنے آبائی علاقے جھاؤ کوہڑو میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا، ابتدائی تعلیم سے لیکر میٹرک تک جھاو کوہڑو ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہے۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے جھاؤ کے بے سہارا معاشرے و والدین کی مالی بد حالی نے آگے بڑھنے نہیں دیاـ

شہید سالار جان دوران طالب علمی ساتویں جماعت میں بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کی، جھاؤ بی ایس او آزاد کے بنیادی دوستوں میں سے ایک شہید سالار جان تھے، جو 2009 تک بی ایس او آزاد میں رہےـ

سالار جان نے 2012 میں بی ایس او آزاد کے انیسویں مرکزی کونسل سیشن میں جھاؤ زون کی جانب سے بحیثیت کونسلر مرکزی کونسل سیشن میں حصہ لیا، جو بعد میں اپنے ہم منزل ساتھوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے. 2013 میں بی ایس او آزاد جھاو ھنکیں کی جنرل باڈی اجلاس میں بطور زونل صدر منتخب ہوئے ـ

شہید خمار جان لالچ و خوف سے پاک انتہائی مخلص اور ایماندار دوست تھے، ہر وقت چہرے پر مسُکرائٹ اور دوستوں کے دیوان میں موضوع اپنے تنظیم اور قومی جد و جہد کے بارے میں رکھتے تھے، بحث و مباحثہ میں بلوچ قوم و بلوچ قومی تحریک سے ہٹ کے بے فائدہ مباحث میں خود کو نہیں الجھاتے تھے۔

جھاو کے ہر گاؤں اور ہر گدان میں بلوچ قومی جدوجہد اور قومی غلامی کے بارے میں شعور و آگاہی پھلاتے رہے. جب بلوچ قومی جدوجہد، بلوچ سیاسی پارٹیوں کے بدولت عروج پر پہنچے تو بلوچستان کے پورے علاقے کی طرح جھاؤ میں بھی ریاست پاکستان کے ظلم و جبر تیز تر ہوگئی. بلوچ قوم اور قومی جہد کاروں کو جدوجہد آزادی سے خوفزدہ کرنے کیلئے ہر روز فوجی آپریشن چادر و چاردیوری کی پامالی اور قومی جہد کاروں کو اٹھا کر لاپتہ کرنا، انہیں کی تشدد زدہ لاشیں پھینکنا ہر روز کا معمول بن گیا۔ ریاست کی اس ظلم و جبر سے شہید کی پیروں میں لرزش آنے کے بجائے حوصلے اور مزید پختگی پیدا ہوئے اور اپنے قومی اور تنظیمی کاموں کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ رہےـ

تنظیم کے ہر کام میں خود حصہ لیتے تھے اپنے علاقے کے تمام اسکولوں میں طالب علموں اور ٹیچروں سے ملتے تھے. تنظیمی پروگرام کو آگئے لے جاتے رہے۔ لٹریچر کی اہمیت سے زیادہ واقف تھے، اسلئے تنظیمی لٹریچرز کو ہر اسکول، ہر گدان، ہر طبقہ فکر کے لوگوں تک تقسیم کرنے میں خود پیش پیش تھے۔

اس لیئے شہید ریاست کا درد سر بن گیا، تو ریاست پاکستان نے اپنے مقامی زر خریدوں کے زریعے سالار جان کو جدوجہد آزادی کی راستے سے ہٹنے کے لئے لالچ و مراعت کی پیش کش کی، شہید ریاستی مکرو فریب کی جال میں نہیں آسکے، ریاستی ظلم و جبرکی سامنے کوہ البرز کی طرح کھڑے رہے، آخر کار ریاست نے علاقائی زرخریدوں کی ذریعے خمار جان کو پریشر ڈالنے کیلئے آپ کے والد صاحب کو قابض آرمی کے ہاتھوں گرفتار کروایا تاکہ سالار قومی آزادی کی جہد سے دستبردار ہوجائے. لیکن سالار ایک مضبوط فکرو ارداہ کے مالک ایک نوجوان تھے. انقلاب کی بے رحم لہر سے اچھی طرح واقف تھے. وہ اپنے رستے میں حائل ہر چیز کو ہٹاتے رہے ـ

شہید نے ان ریاستی چالوں کو درگزر کیا، کیونکہ آپ مطمین تھے کہ میں کوئی نا انصافی کی راہ میں نہیں چل رہا ہوں. اپنے بنیادی قومی حقوق کیلئے سیاسی جدوجہد کر رہا ہوں، یہ میرا بنیادی اور قومی فرض ہے. ریاست پاکستان نے ہمارے سرزمیں بلوچستان پر جبری طور پر قبضہ کیا ہوا ہے اور بلوچ قوم نے اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے. اگر میں نے اس راستے کا انتخاب کیا ہے، تو فکری اور شعوری بنیاد پر اس راستے کا مسافر ہوں. سیاسی جدوجہد کے زریعے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہا ہوں. اگر اس جرم کی پاداش میں میرے والد صاحب کو فوج شہید بھی کردے یا پورے کے پورے میرے فیملی کو تباہ کرے، میرے فیملی والے دوسرے بلوچ فرزندوں سے خاص نہیں ہیں. جو ریاستی ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں. یہ قومی آزادی کی جنگ ہے، میں ریاست کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہونگا اور نہ ہی اپنے راستے سے پھیچے ہٹونگاـ

شہید خمار جان بلندوبالا حوصلے کے مالک تھے، ہر وقت دوستوں کودشمن کی جانب سے آنے والے سخت حالات کے بارے میں حوصلہ دیتے رہے اور آخری وقت تک بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی پلیٹ فارم سے منسلک رہے. دورانِ شہادت بی ایس او آزاد جھاؤ زون کے ڈپٹی آرگنائزر تھے، شہید سالار جان کو جھاو کے علاقے دُرائئ بھینٹ پیلار میں ریاستِ پاکستان کے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں نے 22 اکتوبر 2016 کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔