رویئے کے بارے میں ۔ پندران زہری

245

رویئے کے بارے میں

تحریر۔ پندران زہری

دی بلوچستان پوسٹ 

آپ نے اکثر سنا اور کہا ہوگا کہ فلاں شخص کا فلاں شخص سے رویہ اچھا ہے، دولت ملتے ہی فلاں کا رویہ بدل گیا یا یہ کہ فلاں گھرانے کا رویہ دوسرے افراد سے مختلف ہے! یہ رویہ کیا چیز ہے؟ یہ کیسے اور کن چیزوں کے بنا پر تشکیل پاتا ہے؟ کیا اس کی پیمائش ممکن ہے؟ کیا ہم رویہ کو جانتے ہیں؟ کیا کسی کے کسی رویے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ یہ اور اسی قسم کے دوسرے سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ماہرین معاشرتی نفسیات نے 1920ء اور 1930ء کے درمیان دس برسوں میں اپنی توجہ اس کی طرف مبذول کی۔ ایک انسان اپنی زندگی میں بہت سے رویے سیکھتا ہے اور وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی بھی لاتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اس کے کچھ رویے ایسے ہوتے ہیں، جو تقریباً عمر بھر مستقل طور پر اس کی شخصیت کا حصہ بنے رہتے ہیں، مثلاً ایک فرد کا کھیلوں کی طرف رویہ بچپن اور جوانی میں تو عام طور پر مثبت ہوتا ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بڑھاپے میں اس مثبت رویے میں کمی یا تبدیلی آ سکتی ہے اور وہ کھیلوں میں اپنی دلچسپی کم کر دیتا ہے۔ اس کے مقابلے اس کا اپنے مذہب اور دوسرے مذاہب کی طرف رویہ تقریباً تمام عمر ایک سا ہی رہتا ہے۔ ظاہر ہے یہ بات ہر ایک پر صادق نہیں آتی۔

رویے کی تعریف: رویہ ہماری شخصیت کا ایک ایسا گہرا اور سیکھا ہوا چیز ہے، جو خاص طور پر سوچنے، محسوس کرنے اور عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس کا اظہار ایک فرد اپنی سوچ اپنے احساسات اور اپنے کردار کے ذریعے کرتا ہے۔ مثلاً ایک فرد مذہب کی طرف اپنا رویہ پیدائش کے بعد اپنے گھر بار اور اردگرد کے افراد سے سیکھتا ہے۔ پھر اپنے اسی رویے کے بنا پر وہ نیکی بدی اور جزا اور سزا وغیرہ کے بارے میں سوچتا ہے۔ ایک شخص کابچپن سے سیکھا ہوا رویہ اس کو ایک انداز میں محسوس کرنے، سوچنے اور عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے رویہ شخصیت کا وہ عنصر ہے جس کا اظہار ایک شخص اپنی مخصوص سوچ، مخصوص احساس اور مخصوص عمل کے ذریعے کرتا ہے۔ تعصب رویے کی ایک واضح شکل ہے۔ ایک متعصب شخص کسی دوسرے نظریے، تصور فرد یا گروہ کی طرف منفی سوچ رکھتا ہے، اس کے جذبات اور احساسات بھی منفی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور وہ ان نظریات، تصورات اور افراد کے بارے میں خالصتاً منفی کردار اپنائے رکھتا ہے۔

کوئی بھی رویہ ایک فردپیدائشی طور پر اپنے ساتھ نہیں لاتابلکہ سیکھتا ہے۔ چنانچہ رویوں کی تشکیل میں پہلا اور سب سے اہم کردار اس کا گھرانہ، ماں باپ، بہن بھائی، رشتے دار، دوست اور اساتذہ ادا کرتے ہیں۔ رویے کی تشکیل میں دوسرا اہم کردار وہ معلومات ادا کرتی ہیں، جو فرد کو بہم پہنچائی جاتی ہیں مثال کے طور پر اگر کسی فرد کو باربار اور ہر طرح سے یہ بتایا جائے کہ کسی خاص مذہب یا مکتب کے لوگ تنگ ذہن، متعصب اور گھٹیا ہوتے ہیں تو زیادہ امکان ہے کہ فرد اس پر یقین کرلے۔ یوں اس کا رویہ اس یقین کے ساتھ تشکیل پائے گا۔ یوں رویے کی تشکیل میں معلومات کی بہم رسانی اہم کردار ادا کرتی ہے اور یہ معلومات ایک فرد کو اس کے اپنے گھرانے، خاندان، دوستوں، ملنے جلنے والوں، اساتذہ اور ذرائع ابلاغ سے دستیاب ہوتی ہے۔

ذرائع ابلاغ میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، تھیٹر، اخبارات، رسائل، کتابیں اور پمفلٹ وغیرہ شامل ہیں۔ جب ایک فرد بچپن سے گزر کر جوانی میں قدم رکھتا ہے تو وہ دوستوں کا از خود انتخاب کرتا ہے۔ اب جن لوگوں سے وہ میل جول بڑھاتا ہے وہ اس کا منتخب حلقہ احباب ہوتا ہے۔ یہ اس کے رویوں کی تشکیل میں تیسرے اہم جزو کا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر بالغ فرد سوچ سمجھ کر کرکٹ کے شائقین اور کھلاڑیوں کے ساتھ دوستانہ روابط استوار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کھیل یا عمومی طور پر کھیلوں کے متعلق اس کا رویہ مثبت ہے۔ جبکہ باغبانی کی طرف اس کارویہ تشکیل ہی نہیں پائے گا یا منفی ہوگا۔ چنانچہ ایک شخص کے معاشرتی تعلقات یعنی اس کے منتخب شدہ احباب اس کے رویوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک شخص کس نوعیت کے معاشرتی تعلقات پیدا کرتا ہے اور وہ کس قسم کے لوگوں سے ملنا پسند کرتا ہے اس بات کا تعلق اس کے شخصی رجحانات سے ہوتا ہے۔

بعض لوگ لاپروا ہوتے ہیں اور سطحی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ اسی قسم کے لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا حلقہ احباب بھی ویسا ہوتا ہے۔ جبکہ بعض لوگ معمولی بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور سنجیدہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کا حلقہ بھی ان جیسا ہوتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔