حسد و بغض کی جبلت اور ذہنی تناؤ – برزکوہی

1486

حسد و بغض کی جبلت اور ذہنی تناؤ

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

جبلت خود ایک نفسیات اور رجحان ہوتا ہے، مشہور و معروف فلسفی ول ڈیورانٹ اپنی کتاب، نشاط فلسفہ ،میں لکھتے ہیں کہ “ہر انسانی جبلت کے پیچھے کوئی نہ کوئی جذبہ معلق ہوتا ہے۔” وہ مزید لکھتا ہے “یہ جذبہ جبلت کی طرح فطری اور گہرا ہوتا ہے، بھوک (جذبہ)غذا کی تلاش کے ساتھ وابستہ ہے اور کراہت کا جذبہ احتراز کے ساتھ، اسی طرح پیکار کی جبلت کے ساتھ غصے کا جذبہ اور فرار کی جبلت کے ساتھ خوف کا جذبہ وابستہ ہے اور یوں ہی تجسس کے ساتھ تحیر اور تذذب کے ساتھ شک غلبہ کے ساتھ غرور اور مغلوہیت کے ساتھ انکسار، عمل کے ساتھ خوشی اور آرام کے ساتھ تھکان بزم آرائی کے ساتھ ایک اجتماعی تسکین اور کبھی کبھی خلوت کے ساتھ ایک بے نام سکون۔ مجامت کے ساتھ آرزو پسپائی کے ساتھ شرم بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ مامتا کا جذبہ۔ ،ہر جبلت ہماری سرشت میں داخل ہے اور ہمارے احساسات کی آگ سے ہماری فطرت کے اندر پیوست کی گئی ہے، آخر میں دیکھتے ہیں کہ ہر انسان میں تقریبا ہر جبلت کا تضاد موجود ہے۔”

ایمسپیڈوکلیس نے کہا تھا ہر چیز کا مثبت اور منفی پہلو ہوتا ہے، تو جبلتوں کے بارے میں بھی یہ قول صحیح ہوتا ہے۔ تو حسد کی جبلت میں ہمیشہ پست ذہنیت، کھوکھلا پن، تنگ نظری، بدنیتی، کاہلی و نالائقی، بے حمتی اور سازشی جذبات ہوتے ہیں اور حسد و بغض میں مثبت جذبات نہیں بلکہ مکمل منفی جذبات کارفرماء ہوتے ہیں۔ البتہ رشک میں مثبت جذبہ ہوتا ہے۔ یعنی حسد و بغض کا معنی و مفہوم کسی کی نعمت، صلاحیت، کردار، ہنر اور خوبی کا زوال چاہنا یا اسے چھیننے کی خواہش کرنا ہے۔ جبکہ رشک میں کسی شخص کی کردار صلاحیت ہنر اور خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے۔ لیکن رشک میں وہ نعمت محسود (جس سے حسد کیا جائے) سے چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی جب کہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔ حسد و بغض اور رشک میں زمین آسمان کا واضح فرق ہوتا ہے۔

ایک دفعہ عبد اﷲ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے افضل اور بہتر کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’ ہر مخموم القلب اور صدوق اللسان، صحابہ کرامؓ نے کہا کہ صدوق القلب (زبان کا سچا) تو ہم جانتے ہیں، لیکن یہ مخموم القلب کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا وہ پاک، صاف، متقی شخص جس کے دل میں گناہ، بغاوت، خیانت اور حسد نہ ہو۔‘‘

نااہلی و لاعلمی اور کچھ بھی نہ کرنے کی سوچ اور غیر متحرک اور غیر فعال اور ہمت ہار جانے والے شخص میں حسد و بغض کے جذبات انتہائی زیادہ ہوتے ہیں، اس حد تک کہ وہ ایک مقام پر مکمل احساس کمتری میں مبتلا ہوکر ذہنی ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے اور جدید نفسیاتی تحقیقوں میں یہ بات ثابت ہورہا ہے، ڈپریشن کے مختلف وجوہات کے ساتھ اہم اور بنیادی وجہ خود کچھ نہ کرنا، غیر متحرک رہنا اور دوسروں سے حسد و بغض رکھنا ڈپریشن میں مبتلا کرتا ہے۔

کرسٹوفر کولمبس کو ایک دفعہ ایک ضیافت میں مدعو کیا گیا وہاں اسے کھانے کی میز پر انتہائی معزز نشست پیش کی گئی۔ تو وہاں موجود ایک پست ذہنیت ،حاسد شخص جو کولمبس سے بہت زیادہ حسد کرتا تھا، اس نے فورا کہا تم نے انڈیز دریافت کیا ہے کیا، سپین میں اور ایسے لوگ نہیں ہیں جو اس مہم کی اہلیت رکھتے ہیں؟

تو کولمبس نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور ایک انڈا اٹھا کر اپنے قریب بیٹھے شخص کو کہا کہ اسے سرے پر کھڑا کرے بہت سے لوگوں نے کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے آخر میں کولمبس نے انڈا لیا اس کے ایک سرے کو میز پر معمولی سی ضرب کے ساتھ پچکایا اور کھڑا کردیا۔

اسی پست ذہنیت اور حاسد شخص نے کہا، اس طرح تو ہم سب بھی کرسکتے ہیں۔ کولمبس نے کہا لیکن تم میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا کیونکہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ایسا بھی کیا جاسکتا ہے اسی طرح جب ایک دفعہ میں نے نئی دنیا کا راستہ دکھا دیا ہے تو اب کسی کے لئے بھی اس پر چلنا مشکل نہیں ہے۔

اگر یہ بلاجھجک کہا جائے حسد و بغض، تمام برائیوں، منفی رویوں اور اعمال کا بنیادی جڑ اور ماں یعنی سازش، بدنیتی، منافقت، چاپلوسی، بلیک میلنگ، جھوٹ، غیبت، منفی پروپگنڈے اور مختلف حربوں، حسد و بغض کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں تو ہر گز غلط نہیں ہوگا۔ حسد و بغض وہ مرض ہے کہ اگر کوئی بھی دوسرا آپ کی حمایت اور حق میں بھی کوئی چیز یا عمل کرے وہ بھی اس لیئے ہضم نہیں ہوتا ہے کیوں یہ بھی میں نے کیوں نہیں کیا؟ دوسرے شخص نے کیا، کیوں دوسرا اس طرح کرسکتا ہے، میں نہیں کرسکتا ہوں، حسد اور بغض کے حوالے سے ایک مشہور قصہ ہے۔

کسی جنگل میں ایک مصور و آرٹسٹ نے جنگل کے بادشاہ شیر کا ایک خوبصورت پینٹنگ بنایا، وہ پینٹنگ یا تصویر انتہائی خوبصورت اور متاثر کن تھا شیر نے جب وہ دیکھا تو ایک دفعہ بہت بہت خوش ہوا لیکن اچانک بھڑک اٹھا اور سیخ پاء ہوا کہنے لگا جنگل کا بادشاہ میں ہوں یہ صلاحیت و ہنر بھی میرے پاس ہونا چاہیے تھا، میرے علاوہ یہ کون ہے اس کو کس نے بنایا ہے۔

حسد و بغض رکھنے والا شخص ہر اس چیز کا مخالفت نقطہ چینی اور اس میں کیڑا نکالنے کی کوشش کرتا ہے، جس میں اس کے ہاتھ شراکت اور حصہ داری نہ ہو اور اس شخص کی تعریف نہ ہو، وہ چیز و کام سوفیصد کیوں اچھا خوبصورت اور قابل قبول نہ ہو۔ کیونکہ حسد و بغض رکھنے والا شخص انفرادی تعریف کا بھوکا ہوتا ہے، جہاں بھی جس کام یا چیز میں اس کا شراکت حصہ داری اور تعریف نہ ہو وہ اسے ذہینی حوالے سے قبول نہ کرتے ہوئے، دانستہ طور پر وہاں سے یا اپنا توجہ و خیال ہٹانے کی کوشش کرتا، اس چیز کو نظر انداذ کرتا ہے اس سوچ کے تحت کہ اس چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے یا پھر آخر عدم برداشت کا شکار ہوکر اس پر نقطہ چینی اور مخالفت شروع کرتا ہے یا پھر بڑی حدتک یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی حاسدانہ جذبات کو دبا کر مصنوعی حوالے سے اس چیز یا کام کی زبان و اظہار کی حد تک حمایت کرتا ہے۔ اس میں بھی غور و فکر کرنے سے مصنوعیت کی علامات اور تاثرات بالکل واضح انداز میں ظاہر ہوتے ہیں۔

جو باڈی لینگوئج اور چہرے کے مختلف انداز و حرکات سے نمایاں ہوتے ہیں۔ جن کو جاننا اور سمجھنا علم نفسیات کی تجربہ اور مشاہدے کے بغیر اتنا آسان نہیں ہوتا ہے کیونکہ حاسد لوگ مصنوعیت کی لبادے میں انتہائی مکار، چالاک اور فن کار ہوتے ہیں۔ جو آسانی کے ساتھ دوسروں کو جلد متاثر اور بے وقوف بنا سکتے ہیں، مگر وقتی مدت تک، بعد میں پھر وہ خود ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ حسد و بغض، وہ شدید نفسیاتی مرض ہے جو زیادہ دیر تک مصنوعیت کے اندر چھپ نہیں سکتا ہے آخر کار بھڑک اٹھتا ہے۔

حسد و بغض والا شخص کسی بھی کام یا چیز اور بات پر مطمین و عدم مطمین اور اتفاق اور عدم اتفاق اس لیئے نہیں کرتا ہے کہ وہ کام یا چیز اور بات غلط صحیح، اچھا اور برا ہے بلکہ وہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ یہ کام یا چیز اور بات کس نے کہا ہے؟ کس نے کیا ہے؟ اگر اس کو اس شخص سے حسد نہ ہو تو وہ مطمین اور اتفاق کرتا، اگر اس شخص سے حسد ہو تو وہ کام یا چیز اور بات لاکھ صحیح اور اچھا کیوں ہو، وہ قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ ذہن پر جب حسد و بغض کی پٹی ہو تو عدم برداشت لامحالہ دل و دماغ پر حاوی ہوگا۔

جذبات رشک میں کسی کے ساتھ مقابلہ بازی کرنا باعمل، باعلم اور باشعور انسانوں کی جبلت ہوتا ہے۔ جو ہر انسان میں ہونا چاہیئے، جو مقابلہ بازی اور دوسروں کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرکے خود صلاحیت یافتہ بننا اسی کی طرح یا اس سے بھی زیادہ، جو ایک مثبت عمل ہے۔

لیکن حسد و بغض رکھنے والا شخص خود کچھ نہ کرتے ہوئے یعنی بے عمل، بے علم اور بے شعور ہوکر دل و دماغ میں مقابلہ بازی کرتا ہے، تو یہ مقابلہ باذی خود نفسیاتی مرض، ذہنی تناو و ذہینی دباو اور انسان کو ڈپریشن کا شکار بناتا ہے۔

گون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر نفسیات پیٹر ایم لیون سوہن کا تجویز ہے کہ ڈپریشن سے محفوظ رہنے کے لیے میل جول بڑھائیں۔ سماجی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ورزش کریں، دوستوں اور عزیزوں سے ملیں۔ مسلسل عمل کریں اور ہمیشہ متحرک رہیں، ایسے کام شروع کریں جن سے آپ کو اپنی صلاحیتوں کا احساس ہو، مثلاً کوئی نیا کام سیکھیں، نئے دوست بنائیں ، فلم ، موسیقی ، کھیل اور دوسری دلچسپیوں میں حصہ لیں۔ اور ہاں ‘ مسکرایا بھی کیجئے۔ ماہرین نے بہت سی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہمارے جذبے ہمارے طرز عمل سے مرتب ہوتے ہیں۔

اسی حوالے سے امریکا کے کلارک یونیورسٹی کے نفسیات کے استاد جیمز ڈی لیرڈ کا مشورہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب کبھی آپ پر اداسی کا دورہ پڑے تو خود کو کمرے میں بند مت کریں۔ باہر نکلئے، دوستوں سے ملیئے، چہل قدمی کیجئے۔ کسی پارک یا تھیٹرکا رخ کیجئے۔ منہ مت لٹکائیے۔ مسکرائیے۔ محض اتنی سی کوشش سے آپ کا موڈ بدل جائے گا۔ اس کے برخلاف آپ تیوری چڑھائے ،ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنے کمرے میں بند رہیں، تو ڈپریشن کم نہ ہوگا بلکہ بڑھتا جائے گا۔

اسلامی روایت کے مطابق حسد کے اصطلاحی معنی، صاحبِ نعمت سے نعمتوں کے چھننے کی تمنا کرنا ہے۔ حسد، انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اس کی ابتدا حضرت آدم ؑ کے بیٹوں سے ہوئی، جب اﷲ نے ہابیل کی قربانی کو قبول کیا تو قابیل غصے سے بے قابو ہوا اور بھائی کا خون کر بیٹھا۔

تو تمام سائنسی، مذہبی، فلسفی، نفسیاتی، تجربی اور دیگر علوم کی تناظر اور نچوڑ میں یہ حقیقت سامنے واضح ہوتا ہے کہ بغض و حسد دل کا وہ جبلت و خبث ہے۔ یہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ دنیا میں حسد کا نقصان یہ ہے کہ انسان مسلسل تکلیف میں رہتا ہے کہ جب بھی وہ اپنے دشمن یا دوست کو راحت میں دیکھتا ہے تو اس کا خون کھولتا ہے اور اس پر ہونے والی نعمتوں اور راحتوں کے چھننے کی تدبیریں سوچتا ہے اور سازش کرتا ہے اور جب اس سے کچھ بن نہیں پاتا تو دل میں کڑتا رہتا ہے۔ اور ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے اور مسلسل ڈپریشن کا شکار ہونے سے انسان پھر کئی مختلف ذہنی اور جسمانی امراض میں مبتلا ہوگا، پھر اس کے پاس حسد و بغض کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا جو انسان کے کردار کا زوال اور موت ثابت ہوگا۔ وہ پھر انسان کی شکل میں صرف حیوان ہی ہوگا، صرف کھانا پینا چلنا اور سونا اس کے علاوہ کچھ نہیں یہ ویسے ہی حیوانی جبلت و خصلت ہیں ہر جانور میں یہ ہوتے ہیں۔

جب حسد و بغض کی نفسیات رجحانات اور جذبات تنظیموں، تحریکات قیادت اور کارکنوں میں ہو وہ نفسیات، رجحانات اور جذبات تنظیموں، تحریکات، قیادت اور کارکنوں کو رفتہ رفتہ دیمک کی طرح چاٹ و کاٹ کر ختم کردیتی ہے اور زوال کی طرف لیجاتا ہے۔ کیا بلوچ قومی تحریک قیادت اور کارکنوں میں آیسی نفسیات، رجحانات اور جذبات موجود نہیں ہیں؟ اگر موجود ہیں تو کامیابی اور کامرانی پھر کس دلیل اور منطق کی بنیاد پر؟ جب کہ تمام علوم، مشاہدات اور تجربات اس بات اور حقیقت کی پرزور اور واضح دلیل و منطق پیش کرتے ہیں کہ حسد و بغض دیمک کی طرح ہر چیز عمل اور کردار کو دیمک کی طرح چاٹ لیتے ہیں؟

اس بات اور حقیقت پر اتفاق اور قائل ہونا چاہیئے بلکہ یہ بات اپنے شعور و سوچ کا شعوری اور علمی بنیاد پر حصہ بنانا چاہیئے کہ دنیا میں اربوں کی تعداد میں انسان کسی بھی لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہیں اور نہیں ہوسکتے ہیں۔ پھر ان کے کردار صلاحیت بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہر ایک میں مختلف صلاحیتیں اور نعمیتیں موجود ہیں اور ہر ایک کے لیئے جگہ اور موقع موجود ہے تو پھر بجائے، دوسروں کی صلاحیتیوں اور نعمتوں کو چیھننے کے بجائے یا ان سے حسد و بغض کرنے کے خود اپنی صلاحتیوں کو ڈھونڈ کر بروکار لانا چاہیئے اور دوسروں کی صلاحیتوں کو قبول کرنا چاہیئے، تو انسان کبھی بھی بغض و حسد کا شکار بھی نہیں ہوگا اور خطرناک مرض ڈپریشن سے محفوظ ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔