بلوچ سیاسی کارکن ۔ ماہگنج بلوچ

176

بلوچ سیاسی کارکن

تحریر۔ ماہگنج بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

یہ بات واضع ہے کہ سوشل میڈیا دنیا میں بہت زیادہ استعمال کی جاری ہے. سوشل میڈیا سے اپنی بات اوروں تک پہچانا کافی حد تک آسان ہے. سوشل میڈیا ایک مظلوم قوم کے لئے وہ واحد راستہ جس سے وہ اپنی آواز اور لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔ اس کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا. ہر چیز کے نقصانات اور فوائد ہوتے ہیں. جب ہر چیز کے ہوتے ہیں، تو سوشل میڈیا کے بھی ہوں گے. بحیثیت ایک غلام قوم جس میں ایک غلط پالیسی یا ایک غلط طریقہ کار ایک تحریک کی جڑیں ہلا دیتی ہے، اسے کافی حد تک مفلوج کرتا ہے. غلام قوم ہونے کے ناطے کچھ چیزیں، ہمیں نفسیاتی طور پر ریاست کی طرف سے بخشی گئیں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوری و غلطی کو بحث و مباحثے میں لائے بغیر ان کو دوسروں کے سر ڈالتے ہیں.

یہی حال بلوچ سیاسی کارکنان کی بھی ہے. ان کو اپنے أپ کو بلوچ سیاسی کارکن کہنے سے پہلے چند سولات اپنے ذہن میں اٹھانا چاہیئے. کیا ہم اپنی نئی نسل کو حقیقی اور عملی سیاست سے دور تو نہیں کر رہے؟ کیا ہم بلوچ نوجوانوں کواصل اور آزادی کی کٹھن راہوں سے ہٹا کر محض انہیں نرگسیت کا شکار نہیں کر رہے کہ وہ یہ سوچیں قوم کے لیئے سب کچھ میں کر رہا ہوں سوشل میڈیا پر؟ کیا ہم اپنے نسل کو مفلوج تو نہیں کر رہے؟

سوشل میڈیا پر اگر قومی مسائل کا حل ہونا اتنا آسان ہے، جیسے بلوچ سیاسی کارکنوں نے سمجھا ہوا ہے تو دنیا میں جتنے ممالک کے سیاسی پارٹیز ہیں، وہ سب بھی اسی کا استعمال کرتے، کیوں اتنے بڑے بھیڑوں میں جاکر اپنا جان جوکھم میں ڈالتے ہیں اور عوام کے سامنے مخاطب ہوتے ہیں. بلوچ نوجوان بحیثیت ایک ذمہ دار سیاسی کیڈر بننے سے پہلے سوشل میڈیا کا شکار ہو جاتے ہیں. جس کے لیئے پھر اس جوکھم سے نکلنا ناگزیر ہو جاتا ہے. اور وہ بغیر کسی سیاسی مرحلے سے گذرے بغیر خود کو بلوچ قوم کا ہست و نیست سمجھتے ہیں۔

کیا سوشل میڈیا ہمیں قومی سطح پر کوی فائدہ دے رہا ہے؟ بلوچ ایک مظلوم قوم ہے. جیسے ہر مظلوم قوم ہوتا ہے معاشی کمزوری، تعلیم کا نہ ہونا اور بھی بیشتر چیزیں. ان دو چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بلوچ قوم سوشل میڈیا سے دور ہے نا خواندگی اور معاشی مسائل اسے دور رکھتے ہیں. تو پھر ہمارے لیئے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بننے کا قومی سطح پر کوئی فائدہ نہیں. ہاں ہم محض اپنے ذہنی تسلی کے لیئے یہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ صرف ہمارے نوجوانوں کو کافی حد تک متاثر کر رہی ہے اور وہ بھی اپنے قومی سیاست سے دور سوشل میڈیا میں پناہ لیتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔