بلوچستان میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کی اغواء معمول بن چکی ہے. ماما قدیر

125
file photo

 لاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3358 دن مکمل، بی ایس او (پجار) وفد کی اظہار یکجہتی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3358 دن مکمل ہوگئے جبکہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے سابقہ چیئرمین نے ساتھیوں کے ہمراہ لاپتہ افراد و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پاکستان اپنی فورسز، خفیہ اداروں اور سیاسی مہروں کے ذریعے بلوچ قومی شناخت و جہد کو کاؤنٹر کرنے کی پالیسیوں پر سختی سے گامزن ہے۔ جہاں ایک طرف پوری عسکری قوت کے ساتھ بلوچ سول آبادیوں پر یلغار و بربریت زوروں پر جاری ہے تو دوسری طرف خفیہ اداروں، مقامی ڈیتھ اسکواڈوں کے ذریعے بلوچ قومی تحریک پسند، سیاسی ورکروں، ہمدردوں تمام مکاتب فکر کے افراد کی اغواء کرکے اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھنکنا روز کا معمول بن چکا ہیں ۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ یہ دن کا دستور ہے کہ یہاں انہی لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے جو اپنے منشور نظریہ پر ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے زندگی کو غربت، پریشانی میں گزار کر بھی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اس محدود زندگی میں اپنے ہر ایک لمحے کو اپنی قوم اور اپنے اصولوں پر قومی تحریک کے جدوجہد میں اپنی شہادت میں ایک ادارہ تخلیق کرتے ہوئے اپنے پیھچے روایات اور سچی قوم پرستی کے عظیم جذبات چھوڑ جاتے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے اظہارِ یکجہتی کرنے والوں سے کہا کہ ان چراغوں کو تیز ہواؤں کا سامنا ہے اور بعض مواقعے پر ان جدوجہد کی چراغوں کی روشنی کچھ مدھم بھی نظر آئی مگر یہ چراغ نامساعد کی آندھی میں ہی بجھ نہ پائے اور مختلف ادوار میں ان چراغوں کو خون دینے والے بلوچ سپوتوں کی فہرست بہت طویل ہیں اور سپوت اپنے قومی کردار اور قربانیوں کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔