بائیکاٹ کے باعث بلوچستان بھر میں پریکٹیکل امتحانات کا انعقاد نہ ہوسکا۔

146

کنٹرولر جامعہ بلوچستان اور کالج پروفیسرز کے مابین اٹھنے والا تنازعہ شدت اختیار کر گیا، بی پی ایل اے کی اپیل پر کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کے بوائز و گرلز کالجز میں بی ایس سی کے پریکٹیکل امتحانات کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا۔ پریکٹیکل دینے کے لئے آنے والے طلباء یونیورسٹی انتظامیہ کو کوستے ہوئے واپس گھروں کو چلے گئے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا معاملے کے حل کی بجائے پورے صوبے کے طلباء کا پریکٹیکل امتحان کوئٹہ میں لینے کے شاہانہ فیصلے سے طلباء اور والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، دوسری جانب بی پی ایل اے نے ہفتے کے روز امتحانی مراکز میں سیکورٹی  فورسز کی تعیناتی اور پروفیسرز کے ساتھ زور زبردستی کی مذمت کرتے ہوئے محکمہ کالجز سے تحقیقات کا مطالبہ کردیا اور ساتھا ہی بلوچستان کے تمام کالجز کی مکمل تالہ بندی کا عندیہ دے دیا۔

واضح رہے کہ کنٹرولر جامعہ بلوچستان کے ناروا، تعلیم دشمن اور پروفیسرز مخالف رویے کے خلاف بلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن نے ہفتے سے شروع ہونے والے بی ایس سی کے پریکٹیکل امتحانات اور بی اے، بی ایس سی پیپر مارکنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ ہفتے کو دیئے گئے ڈیٹ شیٹ کے مطابق طلباء و طالبات پریکٹیکل امتحان دینے کے لئے کالجز میں پہنچے تو پروفیسرز بائیکاٹ پر تھے جس کے باعث طلباء و طالبات کو واپس جانا پڑا۔

بی پی ایل اے کی مرکزی کال پر ہفتے کو کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کے تمام بوائز و گرلزڈگری کالجز میں کالج اساتذہ نے احتجاج ریکارڈ کرایا۔

بلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے مرکزی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بی پی ایل اے کبھی بھی طلباء وطالبات کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی مگر بدقسمتی سے یونیورسٹی انتظامیہ ایک فرد واحد کی بلیک میلنگ میں آکر طلباء کا مستقبل داؤ پر لگانا چاہتی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی ساری دلچسپی فیسوں میں اضافے، طلباء کو فیل کر کے ان پر تعلیم کے دروازے بند کرنے اور طلباء و طالبات کے لئے مشکلات پیدا کرنے تک محدود ہے۔ ہفتے کو یونیورسٹی انتظامیہ نے سیکورٹی فورسز تعینات کرکے تعلیمی اداروں اور پروفیسرز کو یرغمال بنانے کی کوشش کی، محکمہ کالجز ہائیر و ٹیکنیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اس عمل کی تحقیقات کرائے کہ ایسا کیونکر کیا گیا اگر محکمے نے اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا توپورے بلوچستان کے کالجز کی مکمل تالہ بندی بھی کی جاسکتی ہے جس کی ذمہ داری متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بی اے بی ایس سی کے حالیہ امتحانات میں کنٹرولر بلوچستان یونیورسٹی نے نہ صرف امتحانی قواعد کی خلاف ورزی کی بلکہ توہین عدالت کے بھی مرتکب ہوئے، انہوں نے اپنے من پسند ٹولے کو جو پورے صوبے میں بدنام زمانہ سکواڈ کے نام سے شہرت رکھتا ہے اسے حسب سابق نواز،ا روٹیشن پالیسی کو پاؤں تلے روندھا گیا اور بدنیتی کی انتہاء کرتے ہوئے غیر ملازم پیشہ افراد کی امتحانی ڈیوٹیاں لگائیں جس پر بی پی ایل اے نے تحفظات کااظہار کرتے ہوئے اس کی نشاندہی کی تو کنٹرولر اور ان کی لابی کالج اساتذہ کے خلاف میدان میں آگئی۔ کالج اساتذہ کے ساتھ انتہائی تحقیر آمیز اور نامناسب رویہ اپنایا گیا جس سے ایک استاد ہی کا استحقاق مجروح نہیں ہوا بلکہ خود کنٹرولر جامعہ بلوچستان نے اپنے عہدے کا تقدس بھی پامال کیا ان کے اسی رویئے کے خلاف بی پی ایل اے نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ بی پی ایل اے کا بائیکاٹ اور احتجاج مطالبات پر مکمل عملدرآمد اور یونیورسٹی انتظامیہ کی باضابطہ معذرت تک جاری رہے گا۔

دریں اثناء بی پی ایل اے کوئٹہ، ژوب، سبی، نصیر آباد اور مکران کے ڈویژنل نائب صدور کے جاری ہونے والے بیانات میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے پروفیسرز و لیکچررز اپنی عزت وقار و سر بلندی کیلئے اپنے پروفیشنل حقوق پر کوئی دھونس دھمکی و سمجھوتہ قبول نہیں کرینگے۔

ڈویژنل نائب صدور نے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بائیکاٹ کے محرکات کالگانے اور بی پی ایل اے قیادت سے مذاکرات کی بجائے پورے صوبے کے طلباء کو پریکٹیکل کے لئے کوئٹہ بلانا نہ صرف طلباء کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اس عمل سے یونیورسٹی انتظامیہ طلباء و طالبات ان کے والدین اور بی پی ایل اے کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرکے اپنے سیاہ کارناموں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔