انسانیت کے علمبردار شبیر بلوچ کے رہائی میں ناکام – محراب بلوچ

252

انسانیت کے علمبردار شبیر بلوچ کے رہائی میں ناکام

محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

دوسری جنگ عظیم کے جنگ و جدل، جنگی بربریت، انسانی بحران، زور آور ملکوں کا کمزور اقوام کا استحصال، قبضہ، سامراجوں کا بے قابوہوس، استعماریت کا پروان چڑھنا، انسانیت کے خلاف انسانی طرزِ طریقہ کاروں نے ایک نہ خوشگوار ماحول وفضا میں قائم کیا۔

مہذب لوگوں کو انسانیت کے تحفظ کیلئے ایک ادارہ بنانے کی ترغیب ذہن میں آئی، اس بناپر ایک معقول ادارہ بنانے کی تخلیق کیلئے جدوجہد میں مصروفِ عمل رہے، اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک ادارہ سرِ ظاہر وجود میں آیا۔ 24 اکتوبر 1945کویعنی اقوام متحدہ کے ادارے معر ضِ وجود میں آئے۔ انسانیت کے نام پر عالمی امن و امان، سیاسی، معاشی، سماجی، لسانی مسئلے مسائل، معاملات سلجھانے کی ٹھان لی۔ آج تک یہ ادارہ یہی پرچار کرتا نظر آرہاہے، دنیا میں جہاں انسانیت کے تذلیل مذہبی منافرت، سماجی، لسانی، معاشرتی نا انصافی، غیر منصفانہ رویوں کے خلاف جدوجہد ظلم و جارحیت کی روک تھام اس ادارے کی اولین ذمہ داریاں ہیں۔

10دسمبر1948کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ ہر انسان کی عزت اور انسانی مساوی اور نا قابلِ انتقال حقوق کو تسلیم کیا جائے گا اور انکی تحفظ کی جائے گی۔ دنیا میں آزادی، انصاف وبرابری اور امن کو بنیادی حقوق قرار دیا گیا کیونکہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے قوانین کو محفوظ رکھا جائے، انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کیلئے حصولِ مقصد کا مشترکہ معیار ہوگا۔ ہر فرد اور ہر معاشرے کے ادارے اس منشور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم، تبلیغ کے زریعے ان حقوق اور آزادی کا احترام پیدا کریں گے اور انہیں قومی وبین القوامی کاروائیوں کے ذریعے ملکوں میں ان اقوام میں جو ممبر ملکوں کے ماتحت ہوں، منوانے کیلئے بتدریج کوشش کرسکے۔

اس دفعہ تیس دفعات پر مشتمل امن چارٹر منظور کیا گیا، جس میں شخصی، شہری، سیاسی، معاشی، نسلی ،انفرادی آزادی اقوام متحدہ نے منظور کرلیں۔

دفعہ نمبر1۔ شخصی آزادی اسطرح کہ تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں انہیں ضمیر اور عقل و دیعت ہوئی ہے اس لئے ایک دوسرے سے بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیئے۔

دفعہ نمبر5۔ میں کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ ،انسانیت سوز ،یا ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی۔

اسی طرح دنیا میں بسنے والے ہر انسان کی امیدیں، امنگیں اقوام متحدہ کے ان بلند بالا دعووں پر مرکوز ہیں کہ ہماری عزت وحرمت، نفس کی حفاظت کیلئے ہمارا ہم قدم رہے گی۔ خاص کر ہر وہ خطہ سامراجیت کے زیر سائے میں تذلیل کی زندگی گذاررہا ہے، استعماریت کی قوت کے شکار ہیں، ان کی امیدیں، امنگیں، اُن انسانیت کے علمبرداروں سے وابسطہ ہیں کیونکہ اقوام متحدہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی حقوق کا ادارہ ہے۔

اقوام متحدہ کا یہ دعویٰ بھی ہے دنیا میں بغیر حسب و نسب ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ہماری بنیا دی ذمہ داری ہے اقوم متحدہ کے چارٹر کو دستخط کر نے والے ممالک کی زمہ داریاں ہیں وہ انکی تحفظ میں اہم کردار ادا کریں، اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کے منشور میں وجود رکھتا ہے کہ کسی طاقتور ملک کو یہ اجازت نہیں کہ کسی کمزرو ملک یا انسان کا استحصال کریں یا کسی قوم پر قبضہ جمائیں یا اپنی کالونی بنائیں۔ وہ سرزمین کی مال معدنیات ،ساحل ،وسائل کی لوٹ مار اور استحصال کریں اور کسی قوم کے کلچر،زبان،تہذیب ،تمدن کی پائمالی کریں اگر اُن چیزوں میں سے جو بھی ہو، اقوام متحدہ کا فرض بنتا ہیکہ ایسے اعمال وحرکات کے روک تھام میں کردار ادا کریں، کیونکہ انکی بنیادی ذمہ داری ہے۔

پاکستان نے برطانیہ کے گھٹ جوڑ سے بلوچستان کو اس وقت نوآبادیت میں بدل کے، وہاں کے بسنے والوں باسیوں کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کرکے انہیں مختلف اذیت ناک تشدد، انسانیت سوز تکالیف ڈھاتا رہا ہے۔ جس میں سب پہلے بلو چ عوام کی انسانی بنیادی حق آزادی کو سلب کیا گیا، اب صورت حال یہ ہے کہ یہاں کے بسنے والے اہل علم دانشور، طالب علموں سے لیکر پروفیسروں تک، ڈاکٹر، بچے اور خو اتین پاکستانی جارحیت سے محفوظ نہیں ہیں۔

پاکستان اپنے قیام کے ایک مہینے کے بعد اقوام متحدہ کا رکن ملک بنا، پاکستان نے اقوام متحدہ کے رکن بننے کے بعد سب سے پہلے تو اقوام متحدہ کی قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک آزاد، خودمختار ریاست بلوچستان پر قبضہ کرکے دورِ حاضر تک ظلم، جار حیت روا رکھا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفعہ 5 میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ، انسانیت سوز، یا ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی۔ لیکن بلوچستان میں انسانی تذلیل کجا! لوگوں کواُٹھا کر غائب کرکے سالوں تک لاپتہ کرنے کے بعد ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہے۔

ریاستِ پاکستان من گھڑت باتوں سے اقوام متحدہ کے آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبردار(ایچ آر سی پی) ہہومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کو بلوچستان کے لاپتہ افراد، انسانی اجتماعی قبریں دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں سیاسی ورکروں کو غائب کرکے ان کی لاشیں ملنا بتدریج جاری وساری ہے، پاکستانی انصاف،عدلیہ کے پرچار کرنے والے خود فوج کے زبان میں بات کرتے ہیں ۔

بلوچستان میں ہزاروں کے حساب سے بچے، جوان، بزرگ اور عورتیں پاکستانی اذیت گاہوں میں اذیت ناک زندگی گذار رہے ہیں، ایک طرف گمشدہ افراد کے کمیشن کے سربراہ اورسابقہ رٹائرڈ چیف جسٹس جاوید اقبال اپنے ایک بیان میں کہہ رہا ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی میں بیرونی ممالک کا ہاتھ ملوث ہے، لیکن بلوچستان میں روز پاکستانی فوج سرعام پوری آبادیوں کے سامنے کسی کے بھائی، کسی کے والد، کسی کے بیٹے کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

بی ایس او کے اس وقت سینکڑوں کارکناں و رہنماؤں کو اغواء اورشہید کیا جاچکا ہے۔ بی ایس او کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری چوبیس سالہ شبیر بلوچ ولد عبدلصمد کو پاکستانی فورسسز نے تربت کے علاقے گورکوپ سے انکے اہلیہ کے سامنے 4اکتوبر2016کو اُٹھا کر غائب کردیا۔ جسکے اب دو سال پورے ہونے کے باوجود وہ تاحال لاپتہ ہیں۔ شبیر بلوچ کی بہن سیمہ اور انکی اہلیہ زرینہ کراچی پریس کلب کے سامنے پر امن ا حتجاج کے تمام طریقے استعمال کررہے ہیں۔ ایچ آر سی پی کی طرف سے آج تک ایک خوش کن حوصلہ افزائی سامنے نہیں آیا کہ شبیر جان کی رہائی میں کوئی تعاون کی جائے گی۔ شبیر بلوچ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ شبیر بلوچ کو اگر ریاستی اداروں نے مشکوک سمجھ کر اُٹھایا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں لیکن شبیر کے گناہ ثابت کریں، شبیر کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے، جو جرم ثابت ہوا انہیں عدالت کے مطابق سزادی جائے، شبیر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ایک سرگرم لیڈرہے، سیاسی جدوجہد پرامن طریقہِ کار کا حامی تھا، پر امن طریقہِ کار پریقین رکھتے تھے۔

اقوام متحدہ کے منشور کے بہت سے پہلوؤں میں سے انسانی انفرادی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی ذات، نسل، ملک، زبان، کلچر، تہذیب کا حفاظت، دفاع کے ساتھ سیاست بھی ہر انسان کا حق ہے۔ اگر سیاست، انفرادی آزادی ملک، زبان، کلچر، تہذیب ہر انسان کا حق ہے تو بلوچ فرزند ان حقوق سے کیوں محروم ہیں؟ اگر کسی انسان کو دوسرے انسان کی تذلیل و سزا کا حق نہیں، کسی کو گنجائش بھی نہیں توبلوچ قوم کیوں ریاستی ظلم وجبر کا شکار ہے؟ اگر شکار ہے تو اقوام متحدہ کیوں خاموش ہے؟

دنیا کے مہذب اقوام میں سے بلوچ قوم بھی ایک تہذیب یافتہ قوم ہے، اسطرح انسانی تذلیل میں سب انسانی حقوق کے علمبردار شامل ہیں کیونکہ ظلم کے خلاف خاموشی اختیار کرنا ظلم کرنے کے مترادف ہے۔

شبیر بلوچ سیاسی کارکن ہیں جو دنیا کے اصولوں کے مطابق اپنی جدوجہد میں مصروف عمل تھا، جسے مجرم کی طرح اٹھا کر غائب کیا گیا، شبیر بلوچ کسی جہادی مسلح تنظیم کا ممبر نہیں ہے، نہ کسی سے کوئی تعلق تھا بلکہ وہ پُرامن جمہو ری طلبا تنظیم بی ایس او آزاد کا رہنما ہے۔ نہ ہی شبیر جیسا نوجوان دہشت کا ماحول پیدا کرتے ہیں، ایک طالب علم کے ناطے شبیر بلوچ جیسے ہزاراں نوجوان لیڈرز و ورکرز کی گمشدگی ایک مظلوم قوم کے مقدر میں المیے سے کم نہیں ہے۔ بلوچ سیاسی کارکنان و رہنماؤں کی بازیابی کیلئے اقوام متحدہ سمیت سندھی،پشتون،اور بلوچ اہلِ قلم و دانشور اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے اخلاقی فرض کو تاریخ میں سنہرے لفظوں میں نقش کروائیں، انسانیت کا پرچار کرنا ہر انسان کا اخلاقی فرض ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔