قومی بیانیہ یا شخصی حکمرانی “چند سوالات و آراء” – عبدالواجد بلوچ

251

قومی بیانیہ یا شخصی حکمرانی
“چند سوالات و آراء”

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

قومی بیانیہ یا Narrative ہماری سیاست کی نئی اصطلاح ہے، جو اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی، اس سے پہلے ممکن ہے کہ کہیں اس کا ذکر آیا ہو، لیکن ہمارے مطالعے میں نہیں آیا۔ البتہ بلوچ قومی تحریک کو ایک نئے ’’ سیاسی معاہدے‘‘ (Political Contract) کی اشد ضرورت ہے کہ جس سے شخصیات کی حکمرانی اور ان کے طابع ہونے کا رویہ زمین بوس ہو، حالانکہ کسی بھی تحریک میں عوامی خواہش ہی اس تحریک کا دستور اُس کا عُمرانی معاہدہ ہوتا ہے نا کہ شخصیات کی بادشاہی کیونکہ حالیہ بلوچ قومی تحریک جسے ہم جدید تحریک کہیں غلط نہیں ہوگا میں نظریاتی و سیاسی سوچ کو ہمیشہ ردوم دینے کی کوشش نہیں کی گئی یا یوں کہیں کہ اس کے آگے جان بوجھ کر بند باندھنے کی سعی کی گئی.

تو چند سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں کہ “جدیدبلوچ قومی تحریک” کا تصور کیا ہے؟ یہ تصور تاریخ کے جس عمل نے پیدا کیا ہے اس کا رخ کیا تھا جب وجود دی گئی؟ “تحریک” کی حقیقت کیا ہے؟ یہ کس کی قوت کا مظہر ہے؟ یہ ایک سیاسی حقیقت ہے یا محض ایک تشکیل ہے؟ بلوچ معاشرے اور بلوچ سے اس کا کیا تعلق ہے؟ “تحریک” اور “قومی” اداروں کی حرکیات کے پیچھے دراصل قوت کس کے ہاتھ میں ہے؟ کیا قومی تحریک قومی پارٹیاں ایک بے شکل آلے کا نام ہیں؟ اگر یہ کوئی “signifier” ہے تو اس کا “signified” کیا ہے؟ یا کوئی “signified” ہے بھی یا نہیں؟ اس کا مصداق “referent” کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جوابات ہی سے “قومی تحریک” کی صحیح تفہیم ہو سکتی ہے.

ہم یہ سوالات اٹھانے پر کیوں مجبور ہیں؟ “جدید قومی تحریک” کی حقیقت یا اس کی غیرحقیقی تفتیش کیوں ضروری ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ “قومی پارٹیوں یا تحریک ” سے ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیئے اور ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟

ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ ہمارے رہنمایان اطمینان کا سانس لے رہی ہیں، تو میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ہمارے مسائل حل ہو گئے ہیں؟ پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنان میں ذہنی، معاشرتی اور سیاسی افراتفری اور بے یقینی راج کر رہی ہے؟ اور سیاست سے متعلق ہر بنیادی مسئلے پر شدید اختلافات موجود ہیں.کیوں؟ اگر اس ضمن میں کچھ قوتیں بلیم گیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کا خاتمہ عمل کے زریعے کیوں ممکن نہیں ہو پا رہی؟ سوال یہ ہے کہ کیا بلوچ قومی تحریک کے مقدس مشن کو “کچھ شخصیات ” اپنے حدود کا پابند بنانے کی کوشش کیونکر کررہی ہیں؟ کیا ما قبلِ آزادی وہ قوتیں تحریک کو اپنے لئے “successor in interest” نہیں بنا رہیں؟

ہمارے خیال میں یہاں ہم سے کوتاہی ہوئی کہ عام طور پر اس کا حل نہیں نکالا گیا ہے کہ “جدید قومی تحریک” کو چند قوتوں کے حدود کا پابند بنانے کی خاطر سوشل میڈیا سمیت کچھ نام نہاد دانشوروں کے ہاتھ سندِ جواز دے دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے کچھ ادارے کماش صورت خان مری جیسے اعلیٰ پائے کے انٹل لیکچولز کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے.

بلوچ قومی تحریک کیونکر خلفشار کا شکار ہے؟ ہمارے رائے میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جدید قومی آزادی کے اس تحریک کو بلا تجزیہ ایک مسلمہ سیاسی حقیقت کی حیثیت سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کی حقیقت یا بے حقیقی کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ علمی کوشش نہیں کی جا سکی۔ اس وقت بلوچ سیاسی کارکن تذبذب کا شکار ہیں وقت گذرنے کے ساتھ مایوسیت کے اثرات واضح ہوتے جارہے ہیں، تقریباً دنیا کے اندر معرضِ وجود میں آنے والی تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح طورپر نظر آتی دکھائی دے گی کہ “تحریک حرکت تھی “اور اس حرکت کے ساتھ ان قوموں نے دورانِ جدوجہد پیچیدگیوں پر قابو پالیا اور تحریک سے جڑے اکائیوں کو مطمئین کرنے کی کوششیں کی. لیکن ہمارے ہاں مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ اختلافات علمی تنازعوں سے بڑھ کر مسلح خانہ جنگی اور بغاوتوں تک پہنچ گئے ہیں.

اپنی شخصی اجارہ داریوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے کچھ قوتیں لیت و لعل کا مظاہرہ کرکے آمرانہ طرزِ بادشاہت کو فروغ دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، جس کا قومی تحریک میں قطعاً گنجائش نہیں. “جدید قومی ریاست” کے قیام کے لئے قومی سوچ اولیت رکھتی ہے اس کی بنیادی وجہ ہے، جب تک پیچیدگیاں قومی و مجموعی سوچ کے تحت ختم نہیں ہونگے مسئلہ حل نہیں ہوتے اور یوں ہمارا سیاسی معاشرہ خلفشار کا شکار رہے گا.

ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے غور و خوض کے راستے مسدود کئے ہیں، ہمارے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک ہم “بلوچ قومی پارٹیوں ” کی حقیقت، ماہیت، اور حرکیات کا تجزیہ کرکے یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ ماضی و حال میں پیش آنے والی پے در پے بلنڈرز قومی تحریک کے ساخت پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں، کیا یہی رویے برقرار رہنے چاہیئے؟ یا نہیں؟

ہمارے خیال میں قومی آزادی کے اس حالیہ جنگ میں ہم نے یہی غلطی کی ہے، اسے سمجھے بغیر ابتداء فراہم کی اور اس بیانیے کے مطابق موجودہ بلوچ قومی تحریک کے اندر پیچیدگی اور انتشارِ فکر کی وجہ کو جاننے کے لئے شدید ضرورت ہے کہ سیاسیات، فلسفہ، تاریخ، قانون، عمرانیات وغیرہ تمام علوم کی مدد سے بلوچ قومی تحریک اور بین الاقوامی سطح پر پائی جانے والی تبدیوں کی حقیقت کو سمجھا جائے، تاکہ اس شے کے بارے میں بلوچ سیاسی پارٹیوں کی تربیت ہو اور ہم اس قابل ہوجائیں کہ ہماری پارٹیاں ما بعدِ آزادی ایک فلاحی ریاست” کی وجود سے پہلے اس کے منفی رجحانات پر قابو پا سکیں اسی تفہیم سے اس فیصلے کی راہ کھلے گی کہ ہمیں “ریاست” کو مکمل طور پر اپنانا ہے، جزوی طور پر اپنانا ہے، اسے بالآخر گوارا کرنا ہے، اسے مکمل طور پر ردّ کرنا ہے، اس کے خلاف مزاحمت کرنی ہے یا اس کے متبادل تلاش کرنے ہیں؟ تاکہ ما بعدِ آزادی بلوچ خطہ ایک انارکی کی کیفیت سے بچ سکے.

جدید قومی تحریک ” کے بارے میں غور کر کے یہ فیصلہ کیا جائے کہ کیا ہم جدید قومی تحریک کو چند قوتوں کے”successor in interest” بننے کے لئے چھوڑ سکتے ہیں؟ یعنی کیا یہ جنگ چند شخصیات کی جانشینی یا حکمرانی و آمریت کے لیئے ہے؟ بعض آوازیں اٹھیں جنہوں نے “جدید قومی تحریک” میں پائی جانے والی پدر شاہی نظام کو ردّ کرنے کے حق میں رائے دی لیکن ان آوازوں کو دبانے کے لئے نئی نئی تاویلیں گھڑی جارہی ہیں اور بھاری فیک آئیڈیز کے ذریعے غیرناقدانہ طریق پر ایک مسلمہ اور جائز حقیقت کے طور پر اس امر کو تسلیم کرانے کے حربے کارمرز کئے جارہے ہیں اور قومی تحریک کے ساتھ مضبوط اعتبار کو کالا ٹھپہ لگاکر متنازعہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ضروری ہے کہ ماقبل آزادی کی اس سیاسی ہیٔت میں آمریت اور نظریہ کے فرق کو واضح لکیر کے ساتھ کھینچ لیا جائے۔ چنانچہ تمام وہ فرائض و اختیارات جو ماقبل آزادی شخصیات کے حکمرانی سے وابستہ تھیں انہیں اس “جدید قومی تحریک ” سے وابستہ کر دیا جائے اور منزل کی تلاش میں یک جہت ہوکر نکلا جائے.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔