شہید شہباز جان استاد علی جان کا فکری شاگرد ۔ واحد بخش بلوچ

1001

شہید شہباز جان استاد علی جان کا فکری شاگرد

تحریر۔ واحد بخش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قلم ہاتھ میں رکھ کر دل چاہتاہے کہ اُس نوجوان کے بارے میں لکهوں، جس نے میری آنکهوں کے سامنے بچپن، لڑکپن، جوانی تک کاسفر طے کیا اور یہی نہیں بلکہ شہادت کا عظیم رتبہ بهی پایا لیکن حیران ہوں کہاں سے شروع کروں اور کس بات پر ختم کروں، شہید شہباز میرا رشتہ دار، میرا دوست اور میرا فکری سنگت بهی تها، جس نے لڑکپن سے جوانی تک کا سفر نہایت تیزی سے طے کیا۔

ویسے کہتے ہیں کہ غلام قوم کے بچے جلدی جوان ہوتے ہیں، شہباز جان بهی یوں کہیئے کہ قبل از وقت جوان ہوا اور بهاری ذمہ داری سنبهال لی اور انهیں بڑی خوبصورتی سے نبهایا بهی، ایک ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی کی تمام خواہشوں کو کہیں دفن کرکے کهٹن اور اندهیری راہوں میں روشنی کی تلاش میں نکلا اور شہادت کی صورت میں ہم جیسے ہزاروں لاکهوں کیلئے روشنی کامیناربن گیا۔ آج ان کے یاد میں دل خون کے آنسو روتا ہے، جب بهی ہاتھ میں قلم اُٹهاتا ہوں تو دل کی دهڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں اور اندر سے آواز آتی ہے “کہاں گیا وه لاغر بدن دراز قد پُرشکوه نوجوان” تو میں خیالوں کی دنیا میں کهوجاتا ہوں جیسے خواب دیکھ رہاہوں کے شہباز جان یہیں کہیں ہیں، ہمارے ساتھ ساتھ ہے۔

شہید شہباز کا جنم چهوٹے سے گاؤں کوہڑو میں ہوا، بچپن سے غلامی سے آشنا ہوا کیونکہ کوہڑو اور گردنواح میں عظیم اُستاد علی جان کے بدولت ایسا سیاسی و انقلابی ماحول بن چکا تها کہ اس سے متاثر ہونا یقینی بات تها، ہر شخص خواه بچہ ہو یا جوان اور بزرگ بهی استاد علی جان سے متاثر تهے۔

شہید استاد علی جان نے انقلابی تعلیمات پهیلانے میں بہت بڑا کردار نبهایا ہے، جس کی عظمت کا ایک جہاں اعتراف کرتا ہے شہید شہباز جان بهی بچپن سے شہید استاد جان کا شاگرد تها اور ہر وقت گلے میں بلوچی رومال اور پاؤں میں بلوچی چپل پہنتاتها۔ اپنے استاد علی جان کے پیچهے پیچهے گهومتا تها، اُس نے اپنی زندگی کو اور اپنا فلسفہ بهی اُستاد کے نقش قدم پر چلنے کو بنایا تها۔ شہید کا تعلق نہایت غریب گهرانے سے تها، علم سے محبت رکهتاتها غریبی اور تنگدستی کی وجه سے مشکل سے میٹرک کی تعلیم پاس کرکے مزید تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکا، لیکن اساتذ ه ان سے بہت متاثر تهے میٹرک کے بعد اساتذه نے ان کی سنجیدگی کو دیکھ کر انهیں بطور چپراسی 5000 ہزار روپے میں رکھ لیا، شہید شہباز جان کو 5000 ہزار سے نہیں بلکہ بلوچستان کی آزادی سے محبت تهی سکول کے کاموں کو نظر انداز کرکے اپنے سرگرمیوں کو پارٹی کاموں میں وقف کرتا رہا کچھ مہینے کے بعد اسی 5000 ہزار سے ہاتھ دهونا پڑا کیونکہ وه بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کرچکا تها اور شب و روز پارٹی کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت کے بعد اس نوجواان نے کبهی مُڑ کر پیچهے نہیں دیکها، کبهی اس یونٹ میں سرکل دینے میں مصروف تها تو کبهی اس یونٹ کے کسی کام مصروف تها۔

مجهے یاد ہے شہید شہباز جان اکیلے کسی یونٹ میں جارہا تها، بہت گرمی تهی میں نے آرام کرنے کو کہا تو ہنس کر جواب دیا گرمی اور سردی میں کیا فرق پڑتا ہے، بلوچ قوم تو ہروقت گرمیوں میں جهلس رہی ہے اکثر شادی بیاه کے تقریبات میں سنگر زرمبش کے رسالے ہوتے اور انهیں بیچ رہا ہوتا، ایک ممبر کے حیثیت سے کام کرتےکرتے اپنی صلاحیتوں کی وجه سے جهاؤ زون کے فنانس سکریٹری منتخب ہوئے، ایک انقلابی کارکن کےحیثیت سے دن رات کام کرتے رہے زون کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مرکزی کونسل سیشن کے ممبر بهی رہے ہیں، شہید شہباز جان ایک خاموش طبعیت کے انسان تهے، ہرمعاملے کو صبر وتحمل سے حل کر لیتے تهے۔ اگر کسی سے ایک دفعہ ملتے تولوگ انهیں دوسری دفعہ دیکهنے کا خواہشمند رہتےتهے۔ بی این ایم کے عہدے کے ساتھ ساتھ بی ایل ایف بهی جوائن کرچکا تها اور ان پر دہری زمہ داریوں کا بوجھ تها، مگر شہید نے کمال مہارت سے کبهی بهی کسی کام کیلئے کوئی عذر پیش نہیں کیا بلکہ دہری ذمہ داریوں کو بڑی خوبی کے ساتھ نبهایا دوستوں نے انکی ذمہ داریوں کو دیکھ کر کئی اہم ذمہ داریاں سونپ دیئے جوانتہائی رازداری سے نبهاتا رہے۔

شہید شہباز جان کئی اہم مشنوں میں حصہ لیتا رہا اور جنگوں کی ویڈیو بناتا رہا، کئی محازوں میں دشمن کو شدید نقصانات سے دوچار کرکے اپنے ساتهیوں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوگئے تهے، وه ایک کمانڈر نہیں بلکہ سپاہی کی حیثیت سے کمانڈر سے پیچهے نہیں تهے، کئی اہم مشنوں میں گئے جو ناممکن تهے لیکن اپنی ہمت اور دلیری سے کامیاب بناتے۔ بی این ایم اور بی ایل ایف کے کاموں میں پش پیش رہے۔

وه اپنے ساتهیوں کے ساتھ کسی سفر پر روانہ ہوئے ہم کچھ دوستوں کے ساتھ اپنے پارٹی کے کاموں میں مصروف تهے، فوج کی آنے کی دوستوں کو اطلاع ملتے ہی آگے جاکر فوج پر حملہ کردیا، گولیوں کی آواز یں سن کر سفر پر جانے والے دوست فوج کی طرف آنے لگے پہنچتے ہی فوج پر حملہ شروع کردیا، دونوں طرف سے حملے کررہے تهے فوج کو شدید نقصان پہنچا رہے تهے، آدهے گهنٹے سے جنگ جاری تها۔

فوج کی بڑی تعداد کمک کرنے پہنچ گئی تهی، اس وقت شہید شہباز جان اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ کسی اور سفر پر نکلے تهے، شہید نے اپنے ساتهیوں سمیت فائرنگ کے آوازیں سنیں، اپنے سفر کو آدهے راستے میں چھوڑ کر واپس اپنے ساتهیوں کی جانب روانہ ہوئے، بدقسمتی سے علاقے میں فون اور رابطہ سسٹم نہیں تها، اس وقت جنگ جاری تها ہر انقلابی دوست چاہتا ہے میں اپنے دوستوں کو گھیرے سے نکال کر خود کو خطرے میں ڈال دوں، شہید شہباز جان نے اپنے ہمراه ساتهیوں سمیت دوسرے اطراف سے فوج پر ہلہ بول دیا۔ تو فوج پسپا ہو۔ ہم پر چاروں اطراف سے حملے ہورہے تھے۔ دوستوں نے اچهی جنگی حکمت عملی اپناکر فوج کے گھیرے میں پهنسے ہوئے دوستوں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوگئے، اس وقت فوج کے کمک کیلئے اور فوجی دستے پہنچ گئے، شہید شہباز جان نے اپنے ساتھ مورچے پر بیٹھے ہوئے اپنے ( زمہ دار ) دوست کو کہا آپ نکل جاؤ اس نے جانے سے منع کیا تو شہباز نے کہا اگر آپ نہیں جاؤ گے تو کوئی ساتهی نکلنے کو تیار نہیں ہوگا، سب مارے جائیں گے توآخر کار شہید شہباز نے اپنے تمام ساتهیوں کو نکال کر آخری گولی تک دشمن کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی۔