شہید الم خان اور انکے فرزند شہید حمید بلوچ ۔ شئے رحمت بلوچ

421

شہید الم خان اور انکے فرزند شہید حمید بلوچ

تحریر۔ شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

اگر بلوچ تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ہم کو بلوچ نوجوانوں، بزرگوں اور عورتوں کی بے مثال جدوجہد اور قربانیاں ملینگے۔ اگر ہم ان کی قربانیوں کو لکھنا شروع کریں میرے خیال میں صدیاں گذر جائینگی لیکن ان کی کہانی پوری نہیں ہوگی اور ہم لکھتے لکھتے تھک جائینگے، لیکن تاریخ ان کو ضرور یاد رکھےگی۔ کیونکہ تاریخ میں ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں جو دوسروں کیلئے جینا سیکھتے ہیں اور اپنی ہر خوشی ایک نظریئے اور ایک عظیم مقصد کیلئے قربان کرتے ہیں۔

اگر ہم بلوچ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم کو ایسے ہزاروں بلوچ ملینگے جنہوں نے اپنی قوم کیلئے اپنی قیمتی جان اور ہر خوشی قربان کرلی اور اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ جیسے کہ شہید جوان سال ریحان جان، شہید درویش، مجید بلوچ اور ایسے اور ہزاروں فرزند ہیں جو میدانِ جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔

ان ہزاروں شہیدوں میں سے میں آج الم خان اور اسکے فرزند شہید حمید کے یادوں میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ بلوچ قوم ان شہیدوں کی قربانیوں کو تاریخ میں انتہائی عزت اور احترام سے یاد رکھے گی۔

شہید الم خان بلوچ ایک انتہائی اچھے، خوش مزاج اور سادہ زندگی کے مالک انسان تھے، وہ اکثر لوگوں کی مدد میں مصروف رہتا، ہر وقت کسی کا مدد کرتے ہوئے پائے جاتے اور مشکل وقتوں میں ان کو کندھا دیتے۔ آپ نے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا اور کسی کو بھی تکلیف نہیں دی۔ وہ اکثر خوش رہتے تھے جب بھی کبھی ملتے تو نہایت آداب سے ملتے اور رخصت کرتے۔

بنیادی طور پر وہ ایک زمیندار اور مالدار تھے، لیکن وہ ایک ایسے طریقے سے جیتے کہ جس کی خوشی سے کوئی اور کو نقصان نہ پہنچے اور انکی خوشی کسی اور کا دکھ کا سبب نہ بنے۔ شہید نے تعلیم حاصل نہیں کیا کیونکہ وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور دوسری وجہ یہی تھی کہ ان کے علاقے میں بھی اسکول اور تعلیم کا نظام نہیں تھا۔

۲۰۱۲ کا زمانہ تھا جب سب کچھ اپنی جگہ اچھا چل رہا تھا، وہ میہی کے علاقے کسوڑی میں رہتے تھے۔ انتہائی خوش تھے نہ کسی سے ناراضگی نہ کسی سے جنگ یا کچھ مسئلہ کچھ بھی نہیں تھا۔ سب اچھے سے رہ رہے تھے اور انتہائی خوش تھے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستانی ظالم فوج نے بڑے پیمانے پر خونی آپریشن کا آغاز کردیااور اس آپریشن میں سو سے ایک سو پچاس کے قریب لوگوں کی گھر جلائے گئے۔ ہر طرف دھواں اور تباہی ہی نظر آرہی تھی، بچّوں اور عورتوں کو ان کے علاقے سے بے دخل کیا گیا۔

گھروں کو جلانے کے باوجود عورتوں اور بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد مکین پہاڑوں میں رہنے لگے اور وہان گھر بسانے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے پھر ایک نئی زندگی شروع کی اور اس وقت انہوں نے کسی بھی قسم کا افسوس نہیں کیا کیونکہ ان کو ان کا گناہ کا پتہ تھا ان کا گناہ صرف یہی تھا کہ وہ بلوچ تھے۔

شہید الم خان کے بیٹا نے اس ظلم اور ستم کو برداشت نہ کرتے ہوئے بندوق ہاتھ میں تھام لیا اور مزاحمت کی شروعات کردی اور ایک ایسے ظالم کے خلاف مزاحمت شروع کردی، جس نے ہزاروں بے گناہوں کو قتل کیا تھا۔ ہزاروں کے قریب لاپتہ کردیئے تھے۔ ایک ایسے ریاست کے خلاف مزاحمت جس میں نہ برابری، نہ انصاف۔ اس ریاست میں کچھ بھی ایسی چیز نہیں جس کی امید پر ہم کہہ سکیں کہ ہماری قسمت اور اس کا نظام بدل سکتا ہے۔ اگر اس نظام کو بدلنا ہے تو صرف ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ ہے کہ مزاحمت، اس بوسیدہ نظام کے خلاف جنگ اور شہید حمید اس راستے پر چل کر ہم کو سکھا گیا کہ ہماری کامیابی اس ریاست کے خلاف جنگ میں ہے۔

لیکن دوبارہ میہی میں جب ایک خونخوار آپریشن کا آغاز ہوا، تو ایک دن میں ۱۳ لوگ کے قریب ظالم فوج نے موقعے پر ہی شہید کیئے اور متعدد کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ اور شہید ہونے والوں میں شہید حمید کے والد شہید الم خان بھی شامل تھے۔ وہ جسمانی حوالے سے ہم سے ہمیشہ کےلئے جدا ہوگئے ۔ لیکن ان کی قربانی جرت وبہادری کو قوم ہزاروں سالوں تک یاد رکھے گی ۔

تیس جون دوہزار پندرہ کے آپریشن اور ان کی شہادت کے بعد فوج نے ان کی بچّوں اور عورتوں کو وادی میہی سے بے دخل کردیا لیکن شہید حمید ہار نہیں مانے اور نہ پہلے سے کمزور ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ مظبوط اور بلند حوصلوں کے ساتھ جنگ لڑنا شروع کیا۔

بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے اپنے جہد کو جاری رکھتے ہوئے کئی محاذوں پر دشمن کو شکست دی۔ لیکن راغئے آپریشن میں ہزاروں فوجیوں نے حصہ لے کر پورے علاقے کو گھیر لیا اور دو بدو جنگ شروع ہوئی، شہید حمید اور اس کے ساتھی لڑتے لڑتے شہید ہوگئے اور کئی فوجی اہلکاروں کو بھی ہلاک کیا۔

یاد رہے اس آپریشن میں بی ایل ایف کے سینیر کمانڈر عبدلخالق عرف سردو اور بی ایل اے کے سینیر کمانڈر گلزمان عرف روح بھی جام شہادت نوش کرگئے۔

شہید حمید بلوچ اکثر پارٹی کے کاموں میں اگر کہیں جاتے تو وہاں ایک اچھے انداز سے لوگوں کو اپنے مقصد سے آگاہ کرتے ۔ اور اپنے بات کو ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے اور یہ بھی پوچھتے کہ ہمارے پارٹی اور اس تحریک سے کہیں آپ لوگون کو شکایت تو نہیں؟ وہ اکثر تنقید اور خود تنقیدی کرتے اور ہر کسی پہ تنقید کرتے اور کہتے کہ یہ ایک اچھا عمل ہے کہ ہم اپنے ساتھیوں کو ان کی غلطی کا احساس دلادیں تاکہ وہ اپنے غلطی کو جانکر اگلی بار اس طرح کا کوئی بھی کام نہ کریں جس سے لوگوں کا اعتماد ہم سے ٹوٹ جائے۔

اس کا مقصد یہ کہ میرے ساتھی ایک ایسا راستہ اختیار کریں جس کا مقصد صرف وطن کی آزادی ہو۔ ہمارے معاشرے میں اکثر تنقید نہیں کرتے بلکہ پروپگنڈا بہت کرتے ہیں۔ وہ اس چیز پر یقین رکھتے کہ ساتھیوں کو ان کی غلطی کا احساس دلایا جائے تاکہ وہ اگلی بار ایسی کوئی غلطی نہیں کریں۔ جس سے تحریک کو نقصان ہو۔ ان کو پتہ تھا کہ اگر ہم کوئی غلطی کرتے ہیں تو اس غلطی کو ہمارے نام سے کوئی یاد نہیں رکھتا بلکہ تحریک کو غلط کہتے ہیں۔ اور وہ یہ کبھی بھی ماننے کو تیار نہیں تھے کہ کوئی تحریک کو غلط کہے، کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اگر تحریک کو نقصان پہنچ گیا تو ہمارا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔