سی پیک سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا – ثناء بلوچ

616

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی وسابق سینیٹر ثناء بلوچ نے کہاہے کہ سی پیک سے متعلق بلوچستان کے حقو ق پر سابقہ حکمرانوں نے تاریخی غفلت کی ہے جس کے باعث آج ہم بلوچستان کے حقوق کیلئے آواز کو مدلل انداز میں اٹھانے کی کمی محسوس کررہے ہیں۔

لوگوں کے خیالات ان کے منہ میں دبانے کی کوشش کروگے تو کل وہ بندوق کی شکل میں باہر نکلے گا ہمیں لوگوں کے خیالات ان کے منہ سے نکلنے دیناچاہیے ہوسکتاہے وہ بہتر انداز میں اپنے خیالات کااظہار کرسکیں،یہاں 8لاکھ نوجوان بے روزگار،25لاکھ بچے تعلیم سے محروم جبکہ 66فیصد بچے غذائی قلت کاشکار، 72فیصد لوگ پانی کی سہولت ،58فیصد لوگ بجلی کی سہولت سے محروم ہے ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ میں ایس پی ڈی ایف کے زیراہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیااس موقع پر کوئٹہ میں متعین ایرانی قونصل جنرل آغا محمدرفیعی ، سیکنڈایرانی قونصل جنرل امیر حسین شاکری،ممتاز قانون دان ملک محمدسلیم علی زئی ،پروفیسر نسیم اچکزئی ،ودود جمال بڑیچ، نوابزادہ ہارون رئیسانی ودیگر بھی موجود تھے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی وسابق سینیٹر ثناء بلوچ نے کہاکہ انسان کے ذہن میں امن سکون کانام ہے ،ریاست اگر ایک فرد کو تعلیم ،صحت، پانی ،توانائی امن وامان ودیگر سہولیات دیں تو یہ بھی امن ہی ہے انہوں نے کہاکہ جب بلوچستان میں حالات خراب تھے ہم باہر تھے جہاں میں نے اقوام متحدہ میں وومن ڈویلپمنٹ ،ودیگر پر کام کیا وہاں دیکھا تو بھی یہی حال تھا ۔
انہوں نے کہاکہ امن کے فلسفے بنانے میں وقت لگتاہے ،افسوس ہے کہ آج 8لاکھ نوجوان بے روزگار،25لاکھ بچے تعلیم سے محروم جبکہ 66فیصد بچے غذائی قلت کاشکارہے ۔

انہوں نے کہاکہ پہلے بھی ہم کہتے رہے ہیں کہ سی پیک سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہواہے اورآج بھی کہتے ہیں کہ سی پیک سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہواہے اگر آپ لوگوں کے خیالات ان کے منہ میں دبانے کی کوشش کروگے تو کل وہ بندوق کی شکل میں باہر نکلے گا ہمیں لوگوں کے خیالات ان کے منہ سے نکلنے دیناچاہیے ہوسکتاہے وہ بہتر انداز میں اپنے خیالات کااظہار کرسکیں ۔

انہوں نے کہاکہ سی پیک ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ ایک آئیڈیا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ سی پیک نہیں بنانی چاہیے ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں امن ،تعلیم ،صحت اور توانائی کا بھی کوریڈور بنائی جائے مگر افسوس کہ بلوچستان میں آج بھی 72فیصد لوگ پانی کی سہولت ،58فیصد لوگ بجلی کی سہولت سے محروم ہے ۔
ہم قرون وسطہ کے دور کی زندگی گزار رہے ہیں 16ویں صدی میں لوگ جنہیں بجلی کا نہیں پتا بلوچستان کے آدھے سے زیادہ وہی زندگی گزار رہے ہیں جو 16ویں صدی میں رہ رہے تھے۔

انہوں نے کہاکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں تک یہ سہولیات پہنچائیں تاکہ وہ بھی جدید طرز زندگی گزار سکے اور سہولیات سے مستفید ہو،انہوں نے کہاکہ ان کی خواہش ہے کہ وہ بلوچستان کی ایک ایسی نسل تیار کریں جو بلوچستان کی بات کو مدلل انداز میں حکام بالا تک پہنچاسکیں مگر افسوس آج بلوچستان کے حقوق کیلئے آواز کو مدلل انداز میں اٹھانے کی کمی محسوس کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ 12سو کلومیٹر طویل بارڈر شیئر کررہے ہیں اگر پاکستان ،ایران اور افغانستان آپس میں بھی سی پیک بنا سکتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ جب ہم نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کا فیصلہ کیا تو ان کے سامنے یہ شرط رکھی کہ وہ سی پیک پر دوبارہ بات کریں ہمارے سابقہ حکمرانوں نے سی پیک پر بات کرنے میں تاریخی غفلت کی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ کوئی ہمارے روزگار نہیں دے گا بلکہ ہمیں روزگار کے مواقع خود پیدا کرنے ہونگے ،بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے ایک پروگرام شروع کیاہے جبکہ بلوچستان میں ریٹائرڈ ہونے والے افسران جنہیں میں ریٹائرڈ نہیں بلکہ ایکسپرٹ کہوں گا کیلئے بھی ایک پروگرام شروع کرینگے تاکہ وہ ہمیں تربیت دیں سکے ۔

انہوں نے کہاکہ میرے ایک دوست نے کہاکہ وہ یونیورسٹی کانام صمد خان یا چاکر خان رکھ رہے ہیں تو میں نے کہاکہ آج بلوچستان میں 66فیصد صمد خان ،چاکر خان اور اکبر خان گلی کوچوں میں غذائی قلت کا شکارہے ہمیں ان صمد خان ،چاکر خان اور اکبر خان کا سوچنا چاہیے جن کے نام پر آج ہم پارلیمنٹ میں موجود ہے ۔