زبان و ثقافت اور بلوچ دانشور – میرک بلوچ

336

زبان و ثقافت اور بلوچ دانشور
تحریر: میرک بلوچ

شہید قندیل معلم آزادی پروفیسر واجہ صباء دشتیاری ان نام نہاد دانشوروں کے لیئے اکثر فرماتے تھے کہ ” میری قوم حالت جنگ میں ہے اور میں ادب و زبان کی موشگافیوں میں پڑوں، یہ منافقت مجھ سے نہیں ہوگا۔ ” زبان و ثقافت اس وقت زندہ و سلامت رہتے ہیں جب اسکے بولنے والے زندہ رہیں۔ زبان و ثقافت کی آبیاری اس وقت ہوتی ہے کہ تمھارے پاس اقتدار اعلیٰ ہو۔ زبان و ثقافت اس وقت قائم رہتے ہیں کہ تم اپنی سرزمین کے مالک خود ہو۔ زبان و ثقافت اس وقت ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جب خودمختار منڈی تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہو۔

آیئے! بلوچ قوم کا جائزہ لیں۔ بلوچ وطن اغیار کے قبضے میں ہے۔ بلوچ قوم کی زندگی قبضہ گیر کے رحم و کرم پر ہے، بلوچ وطن کے چپے چپے پر قابض فوج کا پہرہ ہے اور بلوچ قوم فوجی بوٹوں اور بندوقوں کے سائے میں خوف و ہراس کی زندگی گزار رہی ہے۔ اقتدار اعلیٰ قابض حکمران طبقے کے پاس ہے۔ منڈی بھی اسی کے ہاتھوں میں ہے۔ پھر کس کی زبان کیسی ثقافت؟ ذرا اپنی جہالت پر غور کرو کیونکہ تمام ماہرین لسانیات اس بات پر متفق ہیں اور یہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے کہ زبان کیلئے اقتدار اعلیٰ اور منڈی کا ہونا لازمی ہے۔ لہٰذا کسی بھی قوم کی زبان و ثقافت کی ترقی و ترویج کا اولین شرط یہی ہے کہ اقتدار اعلیٰ اس قوم کے اپنے ہاتھوں میں ہو اور خودمختار منڈی اسکی اپنی ہو۔ یہ بات بھی واضح ہو، دوسری قوموں کے دانشوروں، ادیبوں اور فنکاروں نے اپنی طبقاتی اور قومی آزادی کی تحریکوں کے دوران شاندار ادب تخلیق کئے بہترین ناول اور دوسری تحریریں سامنے لائے اپنی قوم کے امنگوں اور آرزوں کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان ناولوں کو عالمی ادب میں پذیرائی ملی اور ادب کے نوبل ایوارڈ بھی نوازے گئے۔ واضح رہے کہ جن ناولوں کو نوبل ایوارڈ عطا ہوئے ان سب کا پس منظر سیاست ہی تھا۔ یہ سب تخلیقات اپنی قوم کی سیاست اور معاشرت کی عکاسی کرتے ہیں۔

قوموں کی رہنمائی دانشور ہی کرتے ہیں۔ یورپ، ایشیا، جنوبی و شمالی امریکہ، افریقہ کی طبقاتی اور قومی آزادی کی تحریکوں کے رہنما دانشور ہی رہے ہیں۔

لینن، ٹروٹسکی ،پلیخانوف، روزالکسمبرگ، ویرا ، ہوچی منہ، ماوزے تنگ، نہرو، ایم این رائے، احمد بن بیلا، نیلسن منڈیلا، چی گویرا، فیدل کاسترو ، ایڈورڈ سعید، فرانز فینن، ریگس ڈیبرے، وغیرہ نہ صرف سیاسی و قومی رہنما تھے بلکہ بلند پائے کے ادیب، مفکر ، مدبر و دانشور بھی تھے۔ چی گویرا میڈیکل ڈاکٹر کے علاوہ چار فیکلٹیوں میں پی ایچ ڈی بھی تھے۔ ساوتھ افریقہ کی مریم موکابے شاعرہ، گلوکارہ، صحافی اور استاد ہونے کے ساتھ ANC کے مرکزی رہنماؤں میں تھیں۔

ہمارے آج کے بلوچ دانشور بھونڈی تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ ادیبوں اور دانشوروں کا سیاست سے کیا کام۔ ان کو اس بات کا ادراک نہیں کہ جس وقت وہ اس قسم کی تمہیدیں باندتے ہیں، دراصل وہ سیاست ہی کررہے ہوتے ہیں اور یہ سیاست قابض ریاست کے حق میں ہوتا ہے۔ اس دوران یہ شعوری اور غیر شعوری طور پر اپنی قوم اور اس کی تحریک کی نفی اور قابض ریاست کی واضح ترجمانی کررہے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔ زبان کے نام پر خود نمائی و خود ستائی میں مبتلا ان دانشوروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کسی بھی طرح قوم کے ترجمان اور زبان و ثقافت کے اتھارٹیز ہرگز نہیں ہیں۔ تاوقتیکہ وہ اپنی قومی آزادی کی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انھیں اس بات کی بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ قومی آزادی کی تحریک پر اپنی محفلوں میں انگشت نمائی کریں یا لب کشائی کریں۔ کینیا کی قومی آزادی کی تحریک کے دوران ایسے دانشوروں کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا تھا اور آزادی کے بعد ان دانشوروں کو قومی اداروں سے نکال دیا گیا تھا۔ بلوچ قوم اور بلوچی زبان کسی چغیداری دانشور کا محتاج نہیں ہے۔ ان کے ان بے سرو پا باتوں پر کوئی یقین نہیں کرتا کہ ہم زبان و ثقافت کی خدمت کررہے ہیں۔

زبان و ثقافت کی ترقی ترویج کی اہم شرط اقتدار اعلیٰ، خودمختار منڈی، آزاد وطن ہے۔ کوئی چغیداری دانشور اگر یہ کہےکہ میں بلوچی زبان کا ادیب ہوں ڈھیر ساری کتابوں کا مصنف ہوں یا میں قابض ریاست کے فلاں یونیورسٹی میں بلوچی زبان کا سند یافتہ استاد ہوں اس لئے میں بلوچی زبان کا اتھارٹی ہوں۔ تو اس کوڑھ مغز دانشور کو چاہیئے ذرا اپنی جاہلانہ دعوے پر غور کریں۔ بلوچ قوم اور بلوچی زبان کا اتھارٹی کوئی قابض ریاست کے تعلیمی ادارے کا استاد یا ڈھیر ساری کتابوں کا مصنف نہیں ہوسکتا۔

جاری قومی آزادی کی تحریک کے دوران بلوچ قوم اور بلوچی زبان کے اتھارٹیز قومی تحریک اور تحریک میں شامل رہنما و جہد کار ہوتے ہیں اور آزادی کے بعد بلوچ قوم اور بلوچی زبان کا اتھارٹی آزاد ریاست ہوتا ہے بلوچ مجموعی طور پر اس وقت قابض ریاست کے ہاتھوں یرغمال اور زیر عتاب ہے۔ کسی قوم کی زبان و ثقافت کی ترقی اس قوم کی سلامتی پر منحصر ہے۔ ایسی بہت سی زبانوں کی تحریریں آثار قدیمہ کے ماہرین نے دریافت کی ہیں لیکن وہ تحریر آج تک پڑھی نہیں جاسکی اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بولنے والی قومیں موجود نہیں ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ بھی جو کہتے ہیں کہ جدید دور میں کوئی قوم ختم نہیں ہوتی۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے لیکن ایسے لوگ اپنی مطلب کی بات نکالتے ہیں اور بات کو پوری نہیں کرتے۔ پوری بات یہ کہ جدید دور میں کوئی قوم ختم نہیں ہوسکتی مگر بشرطیکہ مذکورہ قوم آزاد ہو اقتدار اعلیٰ کا مالک ہوں۔ اگر وہ قوم آزاد نہیں ہے اور اقتدار اعلی کا مالک بھی نہیں ہے تو اس قوم کا خاتمہ اس جدید دور میں اور بھی زیادہ ممکن ہے کیونکہ اس قوم پر قابض قوم بڑی چابکدستی اور ہوشیاری سے اس کو اقلیت میں تبدیل کردیتی ہیں۔ اور اس کے وطن کے حصے بخرے کرتی ہے۔ پھر نہ رہے گی بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ اس کے علاوہ اس جدید دور میں اور بھی جدید طریقے ہوتے ہیں۔ جنھیں خفیہ طریقے سے اور انتہائی سائنسی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ کوئی قوم اس جدید دور میں ختم نہیں ہوتی۔

اس لئے اب بھی وقت ہے کہ بلوچ قوم کے دانشور ڈر، خوف، لالچ اور خودغرضی کو اپنے قدموں تلے کچل کر اپنی قوم اور وطن کی حقیقی ترجمانی کریں۔ خود کو محض بلوچی دیوانوں، مشاعرے کی محفلوں، کلچر کے پروگراموں تک محدود نہ کریں۔ بلوچ قومی آزادی کی صفحوں میں شامل ہوکر اپنا قومی، انسانی اور تاریخی فرض ادا کریں۔ قومی آزادی کی جدوجہد کی کامیابی کے بعد اپنی آزاد وطن میں اقتدار اعلی کا مالک بن کر اپنی آئندہ آنیوالی نسلوں کو ایک آزاد خوشحال ترقی یافتہ پر امن جدید وطن دیکر زبان و ثقافت کی حقیقی معنوں میں ترجمانی کریں۔ یہی راستہ ہی سلامتی کا ہے زبان و ثقافت کی اور پوری قوم کی۔