ریکوڈک کیس میں صرف وکلا کو ساڑھے 3 ارب روپے ادا کردیے ہیں-جام کمال

250

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا ہے کہ ریکوڈک کا مسئلہ بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ 10ارب ڈالر جرمانہ لگ گیا توادا کرنا بلوچستان اور وفاق کے لیے مشکل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کیس میں بلوچستان حکومت نے صرف وکلا کو ساڑھے 3 ارب روپے ادا کردیے ہیں۔

ریکوڈک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر10ارب ڈالر جرمانہ ہوا تو اس صورت میں بلوچستان اور وفاق دونوں کے لیے اس کو ادا کرنا مشکل ہوگا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ ریکوڈک کا مسئلہ بات چیت سے ہی حل ہوجائے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب مشہور علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کونکالنے کے منصوبے کا نام ریکوڈک ہے۔

ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

جولائی 1993میں اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکوڈک منصوبے کا ٹھیکا آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کودیا تھا۔

بلوچستان کے 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہد ہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہواتھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کے لیے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کر لیا تھا۔

آسٹریلوی کمپنی نے کوشش کی تھی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو کل آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔

بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی طرف سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔

بلوچستان حکومت نے 2010 میں یہ بھی فیصلہ کیا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پرخود کام کرے گی۔

بعد ازاں جنوری 2013 میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت اور آسٹریلوی مائننگ کمپنی کے درمیان ریکوڈک معاہدے کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جس کے بعد آسٹریلین کمپنی نے اپنے حصص ٹی سی سی کو فروخت کردیے تھے اور ٹی سی سی نے عالمی ثالثی ٹربیونل میں ریکوڈک منصوبے کے لائسنس میں 40 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کے نقصان کا دعویٰ کیا تھا۔