ریحان دیکھ رہا تھا – جلال بلوچ

282

ریحان دیکھ رہا تھا

تحریر:جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

ریحان کی گہری نظریں قومی تحریک کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے اور معاملے پر جمے ہوئے تھے، ریحان غور اور مشاہدے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ریحان چھوٹی سی عمر میں بھی بڑے سے بڑے بتوں کو شکست فاش دینے کی اہلیت رکھتا تھا، ریحان نیک اور بد کی تمیز فلسفیوں سے زیادہ جانتا تھا۔ اس لئے تو وہ ریحان سے لیچنڈ ریحان بن گیا۔

ریحان دیکھ رہا تھا، ریحان ہر وہ چیز محسوس کررہا تھا، جو ہر کوئی سوچ نہیں سکتا، ریحان غلامی کی شدت درد کو انتہاء کی حد تک محسوس کرکے اپنے احساسات میں شامل کرچکا تھا۔ ریحان اس لیئے عظیم بنا کے وہ چھوٹے عمر میں وہ کرگیا جو لوگ پوری عمر حتیٰ کہ بڑھاپے میں بھی نہیں کرسکتے بلکہ اس عمل کے بارے میں سوچ کر کانپ اٹھتے ہیں۔ ریحان بھی ایک عام انسان اور عام بلوچ تھا، مگر ریحان آج خاص ہے وہ اس لیئے کہ ریحان کی سوچ خاص اور عظیم تھی۔

ریحان وہ تھا جو عام بلوچ کے گھر پیدا ہوا، ایک عام اور غلامی کی زندگی بسر کرنے والا عمر میں چھوٹا، مگر عمل میں سب سے بالغ و پختہ تھا۔ ریحان ایک سوچ ،فکر، نظریہ و فلسفہ تھا مگر ریحان چپ تھا، ریحان دیکھ رہا تھا۔

ریحان نے ہر وہ غیر ضروری تنقید برائے تنقید دیکھا تھا، ریحان نے دشمن کا ہر دیا ہوا درد سہہ کر محسوس کیا تھا، ریحان جانتا تھا میری پرورش ایک غلام قوم و غلام سماج میں ہوا ہے۔ ریحان نے بے شمار شہیدوں کی خون کی خوشبو کی مہک بہت ہی نزدیک سے سونگا ہوگا، ریحان نے ہر ماں کا درد محسوس کیا ہوگا جن کے لال اور پیارے بچے آج تک زندانوں میں قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ریحان نے ان ماوں کا سینے میں چھپا ہوا درد محسوس کیا ہوگا، جن کے پھول سے پیارے بچے انکے آنکھوں کے سامنے شہید کردیئے گئے ہیں۔ ریحان دیکھ رہا تھا۔

ریحان ہر اس بہن کی پیروں کی تھکان شدت سے محسوس کرچکا تھا، جو اپنے باپ کی تلاش میں کئی سالوں سے گلیوں، سڑکوں، عدالتوں ہسپتالوں، شہر شہر بھٹک چکے ہیں۔ ریحان ہر اس بہن کی پکار کانوں میں لیئے سن رہا تھا، جو اپنے بھائیوں کی خاطر چیخ چیخ کر رو پڑی۔ ریحان دیکھ رہا تھا۔

ریحان ہر اس باپ کی فریاد سن رہا تھا، جو اپنے لاڈلے بچوں کے یاد میں آہ کرکے نکالتے تھے، اس لیئے ریحان عظیم بنا اور ریحان لیجنڈ کہلایا۔ ریحان وہ سسکیاں باآسانی محسوس کرگیا، جو شہیدوں کے بیواؤں کے دل سے نکلتی ہیں، ان بے بس آہوں کو لیکر ہمیشہ اشکبار ہوا ہوگا، جن بہنوں کے شوہر ٹارچر سیلوں میں بند ہیں، جن کو کئی سالوں سے کچھ پتا نہیں زندہ بھی ہیں یا مسخ کرکے پھینک دیئے گئے ہیں۔ ریحان دیکھ رہا تھا۔

ریحان ہر اس پتھر، سونے و چاندی کی آہ و پکار سن رہا تھا، جو سرزمین بلوچستان سے کرید کر نکالا جاتا اور بلوچ کو اس کی کوئی بھی پرواہ نا تھا، ریحان ساحل سمندر کی اس گہرائی سے واقف ہوچکا تھا، جس ساحل سے پاکستان سمیت دشمن چین بھی اس کی ہر ایک آمدنی سے لطف اندوز ہوتے، ریحان لیاری کی ان مظلوم بلوچوں سے واقفیت رکھتا تھا، جن کو اکیسویں صدی میں غلامی جیسے طوق لعنت سے مدہوش دیکھا جاسکتا۔ ریحان دیکھ رہا تھا۔

ریحان اس لئے عظیم نہیں بنا کے اس نے وطن کی خاطر جان قربان کیا، بلکہ اس لئے عظیم ہے کیونکہ یہ سب احساس ایک فلسفی و زانتکار کے اندر بھی موجود نہیں تھے، جتنے ریحان نے اپنے سینے میں چھپا کر خود کو فولاد کی طرح مظبوط کیا تھا، واقعی ریحان شہنشا ء شہیدان کہلاتا ہے۔

کردارِ ریحان نے جنگل کی آگ کی طرح بلوچستان سمیت دنیا میں موجود مظلوم قومی تحریکوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے، ریحان دیکھ رہا تھا۔

ریحان کی شعور نے اس انتہاء کو چھوا ہے، جو بلکل عظمت کی راہ دکھاتا ہے، ریحان بھی اپنے ماں،باپ ، بہن،بھائی سے بے انتہاء مہر و محبت کرتا تھا، لیکن ریحان نے تمام مظلوم بلوچستان کو محسوس کیا ہوا تھا، اس لیئے اس نے اپنے راہ کا انتخاب کیا، اس لیئے وہ لیجنڈ کہلایا۔ ریحان اب ہر نوجوان کیلئے ایک احساس ہونا چاہیئے جو اس کے فکر و فلسفے کو انتہاء تک پہنچانے میں کوئی کمی نا چھوڑے اس گلزمین بلوچستان کیلئے فدا ہوں، اس مٹی میں گل ہوکر سما جائیں۔ پھر یہاں سے ہی کامیابی ضرور بلوچ قوم کی قدموں کو چوم لےگی۔

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔