ریحان… جیت کی علامت ۔ سیم زہری

340

ریحان… جیت کی علامت

تحریر۔ سیم زہری

دی بلوچستان پوسٹ 

قلم اور کتابوں کے ساتھ میرا ہمیشہ سے معمولی سا تعلق رہا ہے. میں بذات خود وطن کے لئے لڑنے والے جانباز بندوق برداروں کے قافلے میں شامل نہ ہوسکا، اس میں شاید میرے کمزور اعصاب کا دوش ہے مگر میرے قلم نے ہر دور، ہر لمحہ، ہر لحاظ سے بندوق اٹھانے والوں، وطن پر مر مٹنے والوں کی پیروی کی ہے. انکے نقش پا کے دھول سے اپنے الفاظ چنتا رہا ہوں. میرے کمزور ضعیف آنکھوں نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں میرے زبان کو کئی سو دفعہ کاٹا گیا ہے. میرے سینے کو کئی بار چیرا گیا میں نے خود پر چڑھائی کی داستان سنی ہے. میں نے نوروز خان کے لشکر کی قربان ہونے کی داستاں سنی ہے. میں نے چاغی کو سینا تانے کھڑا دیکھا میں نے اپنی گل زمین کو لاشیں اگلتے دیکھیں. میں نے سفر خان کے کاروان کے ہاتھوں پہاڑوں کی چوٹیوں پر بنے ہوئے چیدوں سے لیکر تراسانی میں دلجان و بارگ کے زگریں بہتے لہو تک کا سفر اپنے نظروں کے سامنے گزرتے دیکھا. شھید امتیاز بلوچ کی یاد میں مشک بیل کے چشمے سے رستے آنسو دیکھے. شھید شہیک کے جسم سے بہتے خون کے ساتھ قوم کو متحد رہنے کا اس کا آخری پیغام بھی سنا۔

اسی درد و غم کی عالم میں میں نے بولان سے امید آتے دیکھا۔
چلتن کو شیریں بکھیرتے ہوئے دیکھا۔
میر گھٹ کے پہاڑی پر آزاد فضاؤں کی گزر سے لطف اندوز ہوتے شانتل کی کُو میں آنے والے بہاروں کی سوغات دیکھی. مکران کی گرم تھوش میں پک رہے گرم لہو کی مہک محسوس کی.
کاہان کے تر لبوں پر بس آجوئی آجوئی کی پکار سنتے آیا ہوں.

یہ آس، یہ امید، یہ انتظار، یہ گیت، یہ سوغات، یہ نغمے، یہ الفاظ میرے وطن نے کئی سالوں سے اپنے زیست کا سامان بنائے رکھے ہیں. مادر وطن بلوچستان کی اولاد ہونے کے ناطے میرے حصے میں بھی یہی کچھ آئے. غلامی، بزگی، ظلم، تشدد، بھوک۔

غربت و افلاس کے ماروں کا بس یہی امید ہی اک سہارا رہا ہے. اس امید میں بس ایک شے کار آمد رہی کہ اسکی سانس نہیں ٹوٹی. گرتے سنبھلتے ہر اتار چڑھاؤ کو دیکھا. مگر امید بندھی رہی کہ کہیں کوئی کسی ماں کی کوکھ میں اپنا وجود پا رہا ہوگا.

کہیں کوئی اپنے ننے پیروں سے چلنا سیکھ رہا ہوگا.
کوئی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پھولوں کی حفاظت کر رہا ہوگا.
کوئی تتلی کے نازک سے رنگوں میں اپنا شاندار مستقبل دیکھ رہا ہوگا
کہیں دودھ کے قطروں نے وطن مادر پر فنا ہونے کا وعدہ لیا ہوگا
کہیں کسی ماں کی لوریاں اپنے زنجیروں کی کھنکھناہٹ سے اکسا رہے ہونگے
کہیں انکے لفظوں میں یہ بیان ہوگا کہ تم وطن مادر کے بیٹے ہو تم جاؤ اپنے وطن کی خاطر لڑو وہی تمھاری حقیقی ماں ہے اُسی کی آغوش میں ہی تمہیں سکون ملے گی.

بس یہی امید لیئے ہم سے کئی سو سال پہلے سے وطن مادر جی رہی ہے اور انہی امیدوں کے چراغ تلے اندھیروں کو مات دینے کی امید سے ہم بھی انتظار کر رہے ہیں.

خود کے انتظار سے زیادہ اس بات پر غور کر رہا تھا کہ بلوچستان اس قدر پر اُمید اس لیئے ہے کہ ہزاروں فرزند قربان کرنے کے بعد بھی وہ بانجھ نہیں ہوئی، اس نے اپنے ایک کے بعد ایک فرزند کو قربان ہوتے دیکھا ہے. اسے اپنے حلالی فرزندوں سے یہی امید تھی اور اسکے لال اپنے فرض پر قائم رہ کر گوہرِ انسانی کے حصول کے لیئے آخری گولی آخری سانس تک لڑے.

وہ پر امید رہ سکتی ہے کیونکہ اس نے ایسے عظیم ماؤں کا انتخاب کیا ہے، جو اپنے بچوں کو سنوار کر فنا ہونے کے لیئے روانہ کرتی ہیں. وہ امید رکھ سکتی ہے کیونکہ اس نے ایسا عظیم باپ عظیم استاد مہربان سنگت اپنے لوگوں کے لیے چنا ہے جو سر پر بوسہ دیکر اپنے فرزند کو آجوئی کی راہ پر ندر کرے.

وہ پر امید ہو سکتی ہے کہ اس نے ایک نوجوان کو دنیا جہاں کے ہر خواہش کو وطن کی آجوئی کے آرزو پر فنا کرنے کی سوچ میسر کی. وہ پر امید ہو سکتی ہے کہ مجید برگیڈ کے جانباز درویش و ریحان نے اس کی چھاتی کو فخر سے چوڑا کیا ہے. وہ پر امید ہو سکتی ہے کہ ایک باپ کو اس نے قربانی کے اس مقام پر پہنچایا جہاں پر تاریخ میں بھی مثالیں نا پید ہو جاتی ہیں.

بولان کے کوہ زادوں نے یہ ثابت کردیا کہ وطن مادر کے سامنے ہر شے ہیچ ہے حتیٰ کہ اپنی جان اور جان سے زیادہ عزیز اپنی اولاد. ایلم اسلم بلوچ کے مخلصانہ جہد اور عظیم فیصلوں نے تاریخ کے ہر اوراق پر قربانی کی عظیم مثال قائم کرکے ماضی و مستقبل کے ہر انا، ہٹ دھرمی، پارٹی بازی، دروغ گوئی، ہلڑ بازی، ذاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھتے خوابوں کو شرمندہ کر دیا.

یہ احساس ایلم اسلم بلوچ کے لیئے اس لیئے نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو وطن پر قربان کر گیا، اس نے ریحان جیسے دسیوں سنگتوں کو کاندھا دیا ہے. دشمن کے کئی وار جھیلے ہیں. دشمن کے کئی خواب ناکارہ بنا چکے ہیں. قربان ہوجانے کی پکار تو وطن مادر کی تھی اور قربان ہونے کے لیے پھل ریحان نے خود کو خود ہی چنا تھا یہ احساس اس لیئے ہے کہ باپ ہونے کے باوجود بھی ایلم اسلم بلوچ اسکے راہ میں رکاوٹ نہیں بنے. دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو آج ہمارے آس پاس، ارد گرد، ماں باپ اپنے بچوں کو پیسے کی خاطر دشمن فوج میں سپاہی بھرتی کرواتے ہیں لیکن وطن پر مرمٹنے کا درس نہیں دیتے.

قربانی کا تقاضہ وطن کا تھا اور ریحان اس عظیم مقصد کا وہ گواڑخ رہا جو دھوپ میں تپتی سخت چٹان پر بھی ہر گرم لُو کو سہے کر جیتا رہا جہاں ہر طرف رکاوٹیں مشکلیں سختیاں بڑھنے لگی جہاں دوست ہاتھ چھوڑ کر رقیب بننے لگے جہاں بدمست دشمن ماڑی سمیت گدان کو تہس نہس کرنے لگا، تب اپنے جینے کے مقصد کو پورا ہوتے دیکھ کر وہ گواڑخ فنا ہونے کی جستجو میں اپنے فیصلے پر ڈٹ گیا اور صدیوں کی زندگی پا گیا۔ لہولہان باغباں میں کوئی گواڑخ اس قدر مہک کر، سنور کر پھیل جائے گا سوچ و بیان اور گمان سے بہت آگے ہے۔.

ریحان وہ چمکتا ستارہ ہے جو قوموں کے حصے میں صدیوں بعد آتے ہیں اور ہر طرف روشنی بکھیر کر تا ابد چمکتے رہتے ہیں.
ریحان وہ جیت کی علامت ہے جو مایوسی کے عالم میں شکست کو فتح میں بدل دیتی ہے.
ریحان وہ پھول ہے جو اپنی مہک سے بکھری قوم کو دوبارہ یکجا کرکے نئی امید جگا دیتا ہے.
ریحان بارش کا وہ پہلا قطرہ ہے جو اپنے ساتھیوں کو راہ دکھاتا ہے.
ریحان وہ بانگ ہے جو مسلسل پیدل سے تھکے مسافروں کو پھر سے جگا کر نئی توانائی سے منزل کی جانب گامزن کردیتا ہے.
ریحان وہ بادل ہے جو اپنی قوم کو تیز گرم دھوپ میں بھی سایہ فراہم کرکے راحت پہنچاتا ہے.
ریحان وہ بادِ نسیم ہے جو ہر روز ایک نئی تازگی بخش کر ہمیں زندگی کی امنگ پہنچاتا ہے.
ریحان جیسے کردار تاریخ کے محتاج نہیں بلکہ تاریخ انہی سے بنتی ہے.

ریحان جیسے بہادر سپوت نخلستان سے پھیلتی مہک کی مانند ہوتے ہیں جن کی خوشبو آزادی کی ہواؤں میں تحلیل ہوکر یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ مقصد وہ مقام کس قدر بلند ہیں جس کے لیے مسکرا کر ہزاروں ریحان فنا ہوگئے جس کے لیے مجید برگیڈ کے ساتھیوں نے یہ راہ چنا جس پر چل کر وہ دشمن کی شکست کا سامان بنے.