رواں برس افغانستان، شام سے بدتر ہو سکتا ہے

149

کابل اور واشنگٹن حکومتوں کی کوشش ہے کہ افغانستان میں پرتشدد حالات کو قابو میں لایا جائے۔ اس کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔

امریکی انسٹیٹیوٹ برائے امن اور دوسرے تجزیاتی اداروں نے سن 2018 کے دوران افغان تنازعے کی شدت شام کے جنگی حالات سے زیادہ ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ رواں برس کو افغانستان کے لیے انتہائی خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ سترہ سالہ تنازعے میں پرتشدد واقعات شدید تر ہو گئے ہیں۔

امریکی انسٹیٹیوٹ برائے امن کے افغان امور کے تجزیہ کار جونی والش کا کہنا ہے کہ افغان تنازعے کے سبھی سال خوفناکی سے عبارت ہیں لیکن سن 2018 سب سے شدید ہے۔ والش کے مطابق افغانستان میں جس رفتار سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے خونی تنازعہ بن جائے گا۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے مطابق ایسا امکان ہے کہ رواں برس افغانستان میں ہونے والی ہلاکتیں بیس ہزار سے تجاوز کر سکتی ہیں۔ اس بین الاقوامی گروپ کے تجزیہ کار گریم اسمتھر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس کے دوران افغان تنازعے میں ہلاکتیں ایک نئی حد کو چھو سکتی ہیں اور مجموعی ہلاکتوں کی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہو سکتے ہیں اور یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے۔
گزشتہ برس افغانستان میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے انیس ہزار سے زائد تھی۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس افغانستان میں ابتدائی چھ ماہ کے دوران تقریباً سترہ سو عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق ہر ہفتے کے دوران تین سو سے چار سو کے دوران عسکریت پسندوں کی ہلاکت ہو رہی ہے لیکن انہوں نے حکومتی فوج کے ہلاک شدگان کی تعداد بارے کچھ نہیں کہا۔

ماہرین کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی بھی سابقہ صدور کی پالیسیوں کی طرح کسی بڑی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہی۔ تاہم افغانستان میں امریکی فوج کے واپس طلب کیے گئے کمانڈر جنرل جان نکلسن کا خیال ہے کہ ٹرمپ پالیسی کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

افغان جنگی حالات میں پاکستان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی بازگشت مسلسل سنی جا رہی ہے۔ ریٹائر افغان جنرل عتیق اللہ امرخیل کا کہنا ہے کہ جب تک امریکا اپنے اتحادی پاکستان کو کنٹرول نہیں کرتا تب تک طالبان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسٹریٹیجیک پالیسی بھی اسی تناظر میں مرتب تو کی گئی ہے لیکن اُس کے ثمرات ابھی آنے باقی ہیں۔