ثابت قدم رہیئے – زرگام بلوچ

391

ثابت قدم رہیئے

زرگام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سیومائل جانسن کا قول ہے کہ “دنیا کے تمام معرکے ذہانت، مہارت یا طاقت کےذریعے نہیں بلکہ ثابت قدمی اور غیر متزلزل عزم کے ذریعے انجام دیے جاتے ہیں” .

اگر دنیا میں کسی فرد یا قوم کو فتح و کامرانی حاصل ہوئی ہے تو وہ ثابت قدمی اور عزم پیہم کے ذریعے حاصل ہوئی ہے. فاتح ہر وقت اپنے مطلوبہ ہدف کا تعین کر لیتا ہے. چاہے اسکا ہدف کتنا کٹھن اور مشکل ہو. اسکے حصول کیلئے کوششوں کا آغاز کردیتا ہے تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ثابت قدم اور پرعزم ہوکر مسلسل کوشاں رہتا ہے. اور یہی رویہ کامیابی کی ضامن ہوتی ہے. ثابت قدمی اور عزم پیہم کا دوسرا نام حوصلہ ہے. ونسٹن چرچل لکھتے ہیں کہ “حوصلہ تمام خوبیوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ تمام خوبیوں کا انحصار صرف حوصلے پر ہے” ونسٹن چرچل بیسویں صدی کے ایک عظیم مدبر اور سیاستدان تصور کیئے جاتے ہیں. زندگی میں انہیں اپنی ثابت قدمی سے شہرت حاصل ہے. دوسری جنگ عظیم میں ان تاریک لمحات میں جب جرمن جنگجو برطانیہ پر بمباری کر رہے تھے. انگلستان تنہا رہ گیا تھا. اس وقت چرچل کی حوصلہ مندی، ثابت قدمی اور عزم صمیم کے باعث برطانوی قوم میں لڑنے کا جذبہ پیدا ہوگیا اور انہوں نے بالاخر دشمن کو شکست دی. چرچل نے جنگ کےدوران نہایت ثابت قدمی اور پختہ عزم کا مظاہرہ کیا اور قوم سےخطاب کیا جس کے آخری الفاظ یوں تھے.” ہم نہ ہتھیار ڈالیں گے اور نہ شکست کھائیں گے. ہم فرانس میں جنگ کریں گے. ہم سمندروں میں جنگ جاری رکھیں گے، ہم فضا میں بھی زیادہ سےزیادہ اعتماد اور قوت کے ساتھ لڑیں گے. ہم ہر قیمت پر اپنے وطن کا دفاع کریں گے. ہم ساحلوں اور میدانوں میں جنگ کریں گے. ہم گلی کوچوں میں جنگ کریں گے. ہم پہاڑوں میں لڑیں گے اور کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔”

جس طرح چرچل نے برطانوی قوم میں جذبہ پیدا کیا اور انہوں نے دشمن کو شکست دی اسی طرح بلوچ اور دیگر محکوم اقوام ثابت قدمی اور پختہ عزم کا مظاہرہ کرکے قربانی کا جذبہ پیدا کر دیں تو دنیا کی کوئی طاقت مظلوم اقوام کو شکست نہی دے سکتی. جب 1895 میں امریکہ شدید کسادبازاری اور مشکلات سے دوچار ہوگیا، اسی صورتحال میں ایک بندہ اپنے ہوٹل سے محروم ہوگیا، تو اس شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک کتاب تحریر کرے گا تاکہ اس مشکل دور میں اپنی قوم کو ہمت اورحوصلہ دلاسکے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کا جذبہ پیدا کرسکے، اس شخص کا نام اداسین سوٹ مارڈن تھا. اس شخص نے رہائشی گھر میں ایک کمرہ لیا، سال بھر دن رات کرکے”pushing to the front” نامی کتاب تالیف کی. آخری شام جب اس نے اپنے کتاب کا آخری صفحہ لکھا تو اُسے تھکاوٹ کے ساتھ بھوک محسوس ہوئی تو وہ گلی کے ایک چھوٹے سے رسٹورانٹ کھانا کھانے چلا گیا. وہاں رسٹورانٹ میں اسے تقریباً ایک گھنٹہ لگا اس دوران اس کے کمرے میں آگ لگ گئی تھی اور آٹھ سو صفحات کا کتاب جل کر راکھ ہوگیا تھا. لیکن اس نے ہمت نہ ہاری- دوبارہ اپنا کام جاری رکھتے ہوئے اگلے سال میں اپنی کتاب دوبارہ تیار کردی. اس نے اپنی کتاب کئی پبلشر کو دکھائی اس مشکل کسادبازاری اور بیروزگاری کے دور میں کوئی بھی پبلشر کتاب چھاپنے کے لیے تیار نہیں ہوا. حالانکہ یہ ایک ایسی کتاب تھی جس میں لوگوں کے لیئے حوصلہ اور تحریک موجود تھا. پھر وہ شکاگو چلاگیا وہاں ایک اور ملازمت حاصل کرلی. ایک دن اس نے اپنی کتاب کا مسودہ اپنے ایک دوست کو دکھایا جسکا ایک واقف پبلشر تھا. بالاخر یہ کتاب شائع ہو گئی اور قوم کے ہاتھ میں آگیا. امریکی کاروباری اور سیاستدانوں نے اس کتاب کو بہت سراہا, اس کتاب نے ان افراد پر بے پناہ اثرات مرتب کیئے جو فیصلہ ساز تھے، نیز یہ کتاب ذاتی شخصیت کی نشوونما کے لحاظ سے ایک شاہکار کتاب ثابت ہوئی. اس سے یہ اخذ کیا کہ ثابت قدمی پکی عزم اور قربانی سے ہی قوموں کو مشکلات سے نکال کر انہیں ہمت و حوصلہ دیا جاسکتا ہے.

انسانیت یا قوم کی تعمیر اس وقت ممکن ہے جب کچھ پرعزم اور ثابت قدم لوگ اپنے آپ کو مستقبل سے ماوراء دیکھنے پر راضی ہو جائیں. قوم کی ترقی اس وقت ہوتی ہے جب مخلص لوگ جانتے ہوئے اپنے آپ کو ہر حوالے سے دوسروں کے برابر رکھ کر جدوجہد کریں یہی قدرت کا قانون ہے. قربانی یہ نہیں آدمی جوش میں آکر لڑ جائے اور اپنی جان دے دے.قربانی یہ ہیکہ ایک آدمی ایک نتیجہ خیز عمل کے غیر مشہور حصے میں اپنے آپ کو دفن کردے. وہ ایسے کام میں اپنی کوشش صرف کرے جس میں دولت یا شہرت کی شکل میں کوئی قیمت ملنے والی نہیں ہو. جو مستقبل کے لیئے عمل کرے نہ کہ حال کے لیے. کسی قوم یا ملک کا انحصار ہمیشہ اسی قسم کےچند افراد پر ہوتا ہے. یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی قوم اور ملک کے مستقبل کا بنیاد بنتے ہیں . وہ خود کو دفن کرکے قوم کے لیئے زندگی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔