ایرانی تیل پر پابندی، عوام کا معاشی قتل ہے – بلال شہزاد برہانزئی

610

ایرانی تیل پر پابندی، عوام کا معاشی قتل ہے

تحریر: بلال شہزاد برہانزئی

دی بلوچستان پوسٹ 

کچھ دن قبل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے حب میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ایرانی ڈیزل و پیٹرول کی سمگلنگ پر مکمل طور پر پابندی عائد کریں گے۔ اس بیان کے تناظر میں اس موضوع پر لکھنے سےقبل پاک ایران تعلقات سرحد کی جغرافیائی اہمیت کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

پاکستان اور ایران کے درمیان بین الاقوامی سرحد 909 کلو میٹر طویل ہے، جسے پاک ایران بیریئر بھی کہتے ہیں۔ یہ سرحد بلوچستان کے مغربی اضلاع چاغی، واشک، کیچ، پنجگور اور گوادر سے متصل علاقہ ہے۔ دوسری جانب ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان ہے۔ پاکستانی و ایرانی بلوچستان میں بلوچ کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ ایران اور پاکستان کے درمیان باضابطہ کاروبار، امیگریشن کے لیئے ضلع چاغی میں پاک ایران سرحد سے آر سی ڈی شاہراہ اور ریلوے لائن گذرتی ہے۔ تفتان کے مقام پر راہداری گیٹ، زیروپوائنٹ بھی ہیں۔

یہاں سالانہ تجارتی سرگرمیوں کا حجم ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر بتایا گیا ہے۔ دونوں ممالک اس حجم کو بڑھانے کے لیئے سرحد پر مزید امیگریشن آفیسز اور مارکیٹیں بنانے کے خواہاں ہیں۔ ایران تفتان سے لے کر مند تک سرحد پر دیوار تعمیر کر رہا ہے۔ جب کہ ایران پر عالمی طاقتوں کی طرف سے پابندی سے اب یہی بات سننے میں آ رہی ہے کہ ایران کے کچھ کاروباری حلقے اور اقتصادی ماہرین اب اس دیوار کو گرانے کے لیئے ایرانی حکومت کو تجویز دے رہے ہیں۔

سرحد کے دونوں اطراف کے ہزاروں افراد چھوٹی موٹی اشیاء کی درآمد و برآمد کے رروزگار سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ماشکیل، مند، جیوانی بھی ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقے ہیں، جہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش بھی سرحدی کاروبار سے منسلک ہے۔

پاک ایران اقتصادی جغرافیائی سرحد اہمیت رکھتی ہے۔ اسی سرحد پر بلوچستان کی حدود میں بالکل سرحد کے ساتھ امریکی ادارہ EIA نے تیل کے بہت بڑے ذخائر دریافت کیئے ہیں، جس کی مقدار نو سو ملین بیرل ہے، جسے نکالنے سے پاکستان کی معشیت میں واضح بہتری آسکتی ہے۔

پاکستان اور ایران کے مابین شروع دن سے اچھے تعلقات رہے ہیں، مگر کچھ سالوں سے ان تعلقات کی بہتری میں کمی آئی ہے۔ نیز کبھی کبھار سرحد پر حالات کشیدہ بھی ہو جاتے ہیں اورایران کی طرف سے راکٹ فائر کیئے جاتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ انڈیا نے چابہار میں سرمایہ کاری کے لیے پورٹ تعمیر کرنے کا کام شروع کیا ہے۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر معاہدے کے باوجود پاکستان نے امریکہ اور سعودی عرب کے دباؤ میں آکر ہاتھ واپس کھینچ لیا تھا۔ جب کہ ایران معاہدے کے عین مطابق اپنی حدود میں پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کر چکا ہے۔ پاکستان کی وجہ سے یہ منصوبہ التواء کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی فورس پر ایک مذہبی تنظیم جنداللہ مختلف حملوں میں ملوث رہی ہے۔ ایرانی حکام کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے کہ جنداللہ کے مضبوط ٹھکانے سرحد کے قریب پاکستانی حدود میں ہیں۔ اسی تنظیم کے سربراہ عبدالمالک ریکی کو چند سال قبل ایران حکومت نے پھانسی دی تھی۔

وسط ایشیائی ممالک کی وجہ سے یہ سرحد دنیا کی اُن چند سرحدوں میں شمار ہوتی ہے جہاں سے منشیات کی سمگلنگ روزانہ کی بنیاد پر ہوتی رہتی ہے۔ انتخابات دو ہزار اٹھارہ کے بعد بلوچستان کے عوام میں ایک امید کرن جاگ اٹھی تھی کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد بلوچستان کے لوگوں کو غربت سے نکال کر روزگار کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ کاروبار شروع کر کے عام لوگوں کے حالاتِ زندگی میں بہتری لائی جائے گی۔

مگر سب کچھ اس کے برعکس نکلا اور عوام کی امیدوں پر پانی پھر گیا، جب نومنتخب وزیراعلیٰ نے ایرانی ڈیزل کے کاروبار پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد بلوچستان کے نصف حصے پر آباد غریب عوام میں کہرام مچ گیا۔ بلوچستان میں چاغی، واشک، کیچ، پنجگور، آواران، نوشکی قلات کے 80 فیصد لوگوں کے کاروبار کا دارومدار ایران کی سرحد سے منسلک ہے۔

صرف یہ نہیں، ایران میں آباد لاکھوں بلوچوں کا ذریعہ معاش پاک ایران بارڈر پر غیر رسمی تجارت ہے۔ دونوں ممالک کے مابین ڈیزل و پیٹرول کی غیررسمی تجارت کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف آباد سخت جان بلو چ اپنی جانوں پر کھیل کر سخت اور کٹھن راستوں سے گاڑی ، اونٹوں اور گدھوں پہ کین لاد کر سرحد پار کر لیتے ہیں۔ اسی محنت و مشقت سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور گھر کے چولہوں کو بجھنے نہیں دیتے ہیں۔

اگر ایرانی تیل کے کاروبار کو بند کیا جائے تو یہاں بسنے والے مجبورآ دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کریں گے۔ کیونکہ پہلے سے یہ معاشی بدحالی اور بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ تیل کے کاروبار کے علاوہ ان کے پاس دوسرا کوئی روزگار نہیں ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو چاہیئے کہ اتنی بڑی آبادی کو غربت اور پسماندگی کی طرف دھکیل کر انہیں نان شبینہ کا محتاج نہ کیا جائے۔ غریب عوام کو دو وقت کی روٹی کمانے کا موقع دے کر ان کا نوالہ ان سے نہ چھینا جائے۔ غربت اور پسماندگی کے شکار ان علاقوں کے نوجوان پہلے ہی زیادہ تر نشے کے عادی ہو رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ کے اعلان سے لوگوں کے ذہنوں میں یہی ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر تیل کے کاروبار کو بند کر دیا جاتا ہے تو اس کے متبادل میں یہاں کے لوگوں کو کیا رزگار فراہم کیا جائے گا؟ کیا اس علاقے میں فیکٹریاں کھول دیں گے؟۔ یہاں کی معدنیات اور سی پیک سے مقامی لوگوں کو ان کے شئیر ملیں گے؟

بغیر کسی منصوبہ بندی کے اتنے وسیع کاروبار کو اچانک بند کرنا لوگوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ بلوچستان کے عوام نے اس فیصلے کی نفی کی ہے۔ وزیراعلیٰ کو اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے بعد عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔

یو این او کے ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کو دنیا کا غریب ترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایرانی تیل کے کاروبار کو قانونی شکل دے کر اس بابت ایران کے ساتھ باضابطہ معاہدہ کیا جائے۔