آجو فدائی شہید ریحان جان ۔ پیادہ بلوچ

379

آجو فدائی شہید ریحان جان

تحریر۔ پیادہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

ہر سال کی طرح میں سوچ رہا تھا کہ اس بار گیارہ اگست کو بلوچستان کی آزادی کا اظہار کس طرح کیا جائیگا۔ ایک ایسا وقت تھا کہ ایک نا ممکن جگہ پر کوئی محبِ وطن سنگت بیرک کشائی کرکے دشمن کو اتنا بیوقوف بناتا کہ بیرک کو اتارنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود دشمن کے عزائم ناکام رہتے، ایک اور وقت آیا کہ وطن کے ارد گرد 11 اگست کو یوم آجوئی منانے کا انداز اسطرح تھا کہ میرے ڈیھ پر دولخی کیئے ہوئے، پہاڑوں پر بیرک بلوچستان پہاڑوں کے چوٹیوں کا زینت بناتے۔ اس بار یعنی 11اگست 2018 کو میں سوچ رہا تھا کہ ان گلی کوچوں میں کیا ہوگا۔ یہ میرا کم سوچ بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں دشمن شب و روز آپ کے اعصاب پر سوار ہو تو سوچ کبھی کبھی چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ وہاں سوچ اتنا ہی کم پڑا تھا کہ میرے علاقے کے ارد گرد اب اس بار کیا ہونے والا ہے، کبھی سوچ رہا تھا کہ اس بار میرے وطن کے سرمچار دشمن پر گھات لگا کر حملہ کریں گے، کبھی سوچ رہا تھا کہ رات کے تاریکی میں دشمن کے ناپاک جھنڈے اکھاڑ کر کچرے میں پھینکے جائینگے، اس سوچ میں پڑا کہیں گم تھا کہ ایک سنگت نے آکر بستر سے جگایا اور کہا کہ “کیا سوچ رہے ہو؟” میں نے کہا ” یہی کہ اس بار ہمارے علاقے میں کیا ہونے والا ہے، جسے ہم اپنی آجوئی سے منسلک سمجھتے ہونگے اور اس بار ہمیں بیرک کس طرف سے نظر آنے کو ملیگا؟”

سنگت نے کہا کہ “اس بار صرف بیرک نہیں بلکہ ایک بیرک پوش نے رات کے تاریکی میں بھی نہیں بلکہ دن کے اجالے میں دشمن کو آسمان پر تارے دیکھا کر فدائی کا اعزاز اپنے نام کرچکا ہے جو کہ آپ کے گلی کوچے نہیں اور صرف بلوچستان میں بھی نہیں بلکہ دشمنان وطن کے آنکھوں میں بارود ڈال کر پورے دنیا کو یہ باور کراچکا ہے کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست ہے چاہے دشمن کتنا طاقت ور ہو ہمارے مخلصی اور جذبے کے آگے اسکی پوری طاقت بےبس ہے۔”

یہ سن کر میرے دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑگئی میں نے کہا کہ شہید درویش کا ساتھی بن کر اس سنگت نے دشمن کو ایک بار پھر لرزے میں ڈالا ہے، میں سوچ رہا تھا کہ یہ ہمت اور شجاعت کسی بڑے عمر کے سنگت کی ہوگی جس نے بہت عرصے تحریک میں کام سرانجام دے دیا ہوگا اور جہدِ آجوئی کو مضبوط کرنے کیلئے اپنی جان قربان کرکے ایک ستارہ بن کر آجوئی کے سفر کو روشن کیا ہوگا، مگر جب میں نے شہید ریحان جان کی تصویر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ اس عمر میں ایک کم سن نوجوان اپنے کھیل کود کیلئے گھر سے باہر نکلنے کے کئی بہانے بناکر ماں باپ کے ساتھ کئی نخرے کرتا ہے، نئی لباس، نئی گاڑی، بنگلہ اور شادی بیاہ کیلئے ہزاروں خواہشات کے سپنے دیکھتا رہتا ہے، مگر ہمارے ریحان جان نے کھیل کود کو میدان جنگ بناکر دشمن کیلئے دھرتی کو زراب بخشا۔ نئے لباس کیلئے بیرک اوڑھا، آجوئی کو معراج اور گاڈی کو براک بنایا اور بنگلے کی جگہ لمہ وطن کی آغوش میں اپنا خوشبو پہلاکر سنگت درویش کے دیوان کا حصہ بنا اور اپنی تمام تر خواہشات کو آجوئی کی امانت سونپ کر ہر بڑے عمر کے سنگتوں کو فکر آجوئی اور مجھ جیسے کم سوچ کو وسیع سوچ رکھنے کی گنجائش کا درس دے کر تاقیامت آجو ہوا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔