کوئٹہ: وزارتِ اعلیٰ کیلئے باپ میں پھوٹ، اختر مینگل فیورٹ قرار

324

بی اے پی کی جانب سے وزارتِ اعلیٰ کے لیے جام کمال کا نام سامنے آتے ہی پارٹی سے وزارت اعلیٰ کے تین اور امیدواروں سامنے آگئے۔

(دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک)

الیکشن کو ایک ہفتے گزر جانے کے باوجود بلوچستان میں اب تک حکومت سازی کا بنیادی مرحلہ طے نہیں پا سکا. بی این پی عوامی اور ایچ ڈی پی کی حمایت حاصل کرنے کے باوجود بلوچستان عوامی پارٹی اب تک اپنا مشترکہ امیدوار سامنے نہیں لا سکی.

بلوچستان عوامی پارٹی میں تین آزاد امیدوار بھی اب تک اس میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں. جبکہ 31 جولائی کو مرکزی قیادت کی عمران خان سے ہونے والی ملاقات میں پی ٹی آئی نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد بظاہر سادہ اکثریت انہیں حاصل ہو چکی ہے.

ذرائع کے مطابق بی اے پی کی جانب سے وزارتِ اعلیٰ کے لیے جام کمال کا نام سامنے آتے ہی پارٹی سے وزارت اعلیٰ کے تین اور امیدواروں کے نام بھی سامنے آ گئے تھے. جن میں‌ سابق وزیراعلیٰ قدوس بزنجو، صالح محمد بھوتانی اور جان محمد جمالی بھی شامل تھے. واضح رہے کہ ان میں سے صالح بھوتانی اور جان محمد جمالی کے نام گزشتہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے مراحل کے وقت بھی سنے گئے تھے.

اب صحافتی حلقوں میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ بی اے پی میں‌ اس معاملے پر دراڑ پڑ چکی ہے اور ایک غیراعلانیہ فارورڈ بلاک موجود ہے جو جام کمال کی نسبت سردار اختر مینگل کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے. 31 جولائی کو جب جام کمال چند اراکین کے ساتھ عمران خان سے بنی گالا میں‌ ملاقات کر رہے تھے، عین اسی وقت اسی بلاک کے چند اہم اراکین نے اختر مینگل سے ملاقات کی ہے اور عینی شاہدین کے مطابق انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے.

اس ملاقات کے بعد اختر مینگل نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ ممکنہ طور پر وزیراعلیٰ کے امیدوار ہو سکتے ہیں. نیز آج ہی وہ عمران خان سے ملاقات کے لیے اسلام آباد پہنچے ہیں. جس کے بعد اس حوالے سے کسی بریک تھرو کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے.

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گو کہ بلوچستان میں بظاہر بی اے پی کو اکثریت حاصل ہے مگر وزارتِ اعلیٰ کے لیے اختر مینگل کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے. جیو پولیٹیکل مسائل سمیت بلوچستان کے سیاسی معاملات کی گتھی سلجھانے کو کئی قوتیں اختر مینگل کو بطور وزیراعلیٰ دیکھنے کی متمنی ہیں. خود عمران خان خان بھی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں.

اس لیے عین ممکن ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے چند منحرفین کو اچھی وزارتوں میں ایڈجسٹ کر کے وزارتِ اعلیٰ بی این پی کو دے دی جائے. ساتھ ہی گزشتہ حکومت کی طرز پر ڈھائی ڈھائی سالہ معاہدے کی بازگشت بھی جاری ہے. اختر مینگل اور عمران خان کی آج کی ملاقات کے بعد اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے.