پاکستان میں آزادی اظہار کی فضا سکڑ رہی ہے – ایچ آر سی پی

183

انسانی حقوق کے  غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حکومت سے آزادی اظہار میں غیر مجاز اور غیر قانونی مداخلت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے  پاکستان میں آزادی اظہار پر جاری مبینہ پابندیوں کی صورت حال کی حقیقت حال سے متعلق جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں رپورٹ کے اجرا کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان کی نئی حکومت کو ملک میں آزادی اظہار پر مبینہ پابندیوں کی صورت حال ورثے میں ملی، تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی ساکھ بہتر کرنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آزادی اظہار کو تحفظ فراہم کرنا کے لیے اقدام کرنے ہوں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال جولائی میں ہونے والے انتخابات کے بعد ملک میں بعض اخبارات کو تقسیم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے جن میں ڈٖان، جنگ، دی نیوز اور نوائے وقت شامل ہیں۔

بعض صحافیوں اور کچھ نشریاتی اداروں کی طرف سے ان تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ملک میں آزادی اظہار کی فضا سکڑ رہی ہے؛ جبکہ حالیہ مہینوں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے کام کرنے والے بعض صحافیوں کی طرف سے آزادی اظہار میں مداخلت کی شکایات کے معاملے کی تحقیقات کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی طرف سے بدھ کو رپورٹ جاری کی گئی۔

رپورٹ کے اجرا کے موقع پر انسانی حقوق کی تنطیم نے حکومت اور اس کے انتظامی اداروں سے ایسی شکایات کا نوٹس لینے اور ان کے ازالے کا بھی مطالبہ بھی کیا ہے۔

اس موقع پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور سینئر صحافی آئی اے رحمٰن نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ “فضا میں خوف ہے۔ کوئی آدمی بولنے کے لیےتیار نہیں ہے اور اگر ایسی فضا برقرار رہی تو لوگ ناصرف بولنا چھوڑ دیں گے بلکہ سوچنا بھی چھوڑ دیں گے۔

نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔

انہوں نے کہا آزادی اظہار کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں اور سول سوسائیٹی کا فرض ہے کہ وہ آزادی اظہار کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔

’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کا کہنا ہے کے ’’اگرچہ حکومت نے ملک کے سرکاری میڈیا پر مکمل ادارتی آزادی کو یقینی بنانے کی بات کی ہے۔ تاہم، کمیشن نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ریاستی میڈیا کے لیے جس آزادی کا اعلان ہوا ہے کیا اس کا اطلاق ان موضوعات پر بھی ہوگا جن کو اسنٹیبلشمنٹ نے صحافت کے دائرہ کار سے خارج کر رکھا ہے جیسا کہ ’پختونخون تحفظ موومنٹ‘ کا میڈیا پر کوریج کا معاملہ ہے۔ایچ آر سی پی نے مزید کہا ہے کہ اس کے علاوہ ملک کے حساس علاقوں خاص طور پر شمالی و جنوبی وزیر ستان میں میڈیا کی بلاجواز بلیک آوٹ ایک آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہے۔

اگرچہ پاکستان کی نئی حکومت کی طرف سے پاکستان میں آزادی اظہار کو درپیش مشکلات سے متعلق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے گزشتہ ہفتے سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان میں سیاسی سنسرشپ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، جسے صحافیوں اور بعض دیگر حلقوں کی طرف سے سراہا گیا۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اس وقت مسئلہ پاکستان ٹیلی ویژن کی آزادی کا نہیں ہے بلکہ نجی چینلز کی آزادی کا ہے، اور حکومت کو اس معاملے کی طرف فوری توجہ دینی ہوگی۔