نئے امریکی فوجی افغانستان میں، مسائل وہی پرانے

امریکا سے نئے تربیتی فوجی افغانستان پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے تربیت کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لی ہیں۔ ان فوجیوں کو تربیتی عمل میں دیرینہ مسائل کا سامنا ہے۔

174

نئی امریکی تربیتی فوجی یونٹ فرسٹ سکیورٹی فورس اسسٹنس بریگیڈ ہے اور اس کی کمان کیپٹن جو فونٹانا کے ہاتھ میں ہے۔ اس امریکی فوجی دستے کا قیام گزشتہ برس لایا گیا تھا۔ یہ امریکی فوجی ایسے وقت میں افغانستان پہنچے ہیں جب افغان نیشنل آرمی پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں شدت دیکھی گئی ہے۔

کیٹن جو فونٹانا کا کہنا ہے کہ سابقہ امریکی فوجیوں کی طرح انہیں بھی پرانے مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل میں سب سے اہم نقل و حمل ہے۔ اس کے بعد افغان فوج کا تنظیمی ڈھانچا ہے۔ ان مسائل میں ایک یہ بھی ہے کہ افغان فوج کا مختلف شہروں اور قصبوں میں قائم کی جانے والی چیک پوسٹوں پر ہے اور یہ چیک پوسٹیں طالبان کے حملوں کا مسلسل نشانہ بن رہی ہیں۔

فرسٹ سکیورٹی فورس اسسٹنس بریگیڈ کا بنیادی کردار افغان نیشنل فوج کی تربیت ہے۔ اس کے سربراہ کیپٹن جو فونٹانا افغانستان میں عملی جنگل میں حصہ لے چکے ہیں۔ وہ نیٹو کی مشترکہ افواج کے ہمراہ زابل اور قندھار میں تعینات رہے تھے۔ فونٹانا عراق میں بھی امریکی جنگی مشن کا حصہ تھے۔ انہوں نے ا    پنی تعیناتی کے بعد افغان فوج کی لڑنے کی اسپرٹ کو قابلِ تعریف قرار دیا۔

کیپٹن جو فونٹانا کا کہنا ہے کہ افغان فوج کو سپلائی کے علاوہ جدید ہتھیاروں کی فراہمی کے مسائل سے بھی دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔ امریکی فوجی افسر کے مطابق افغان فوج اس وقت کسی دشمن کے وار کے خوف میں مبتلا نہیں ہے اور جنگی حالات میں بہتر کارکردگی دکھانے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ فونٹانا کے مطابق کئی فوجیوں کے نشانے بھی بہت عمدہ ہیں لیکن بعض فوجی دماغی طور پر کمزور محسوس ہوتے ہیں۔

امریکی فوج کے ایک نان کمیشنڈ تربیتی افسر نے یہ بھی کہا کہ جس بھی مقام پر انہیں خندقیں دیکھنے کا موقع ملا ہے، وہ بہتر حالات میں رکھی گئی ہیں اور یہ بھی افغان فوج کے بہتر ہونے کی ایک دلیل ہے۔ افغان فوج کو تربیتی مراکز کے علاوہ جنگی حالات کے دوران بھی جنگی مشورے اُن کی تربیت کا حصہ ہیں۔

امریکی فوج اپنی تربیت سے افغان فوجیوں کی جنگی حرکت کو مزید بہتر بنانا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ امریکی فوج کے مشیر ہی مختلف جنگی محاذوں پر افغان فوج کے لیے جنگی مشورے دیتے ہیں اور عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے لیے رابطہ کاری بھی کرتے ہیں۔