رضا جہانگیر کی یاد میں – تحریر: شاد بلوچ

602

رضا جہانگیر کی یاد میں
شاد بلوچ

جب پہلی دفعہ میں نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے کنٹین میں ایک ٹبیل کے گرد کچھ طالب علموں کو کسی استاد کے گرد بیھٹےہوئے دیکھا تو تعجب ہوا کہ یہ کس طرح کا ماحول ہے، کیونکہ میں نے اپنے کالجز میں کھبی بھی کسی ٹیچر کو اپنے طالب علموں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ وہ استاد جو ان کے ساتھ بیٹھے چائےپی رہے تھے، استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دانشور، شاعر اور ادیب بھی تھے، جو گو کہ اسلامیات پڑھاتے ہیں لیکن بلوچی زبان اور ادب سے بے حد محبت کرتے ہیں, لبرل سوچ کے ملک ہیں اور بلوچی زبان اور ادب کی ترویج کیلئے دن رات لگے ہوئے ہیں۔ نام پوچھنے پر اُس شخصیت کا نام صباء دشتیاری بتایا گیا۔

آہستہ آہستہ مجھے اس کنٹین کے سامنے لگے ہوئے ٹیبل روز اپنی طرف کھنچتے رہے، بلآخر کچھ تنظیمی دوستوں سے واقفیت ہوئی اور ایک دن ایک لیکچر سرکل کے بعد کنٹین چائے پینے کیلے جانا پڑا اور اُن تنظیمی دوستوں میں سے ایک رضا جہانگیر تھا، جو کچھ کتابیں ہاتھ میں پکڑے ہوے سب سے آگے تھا، رضا نے پہلے استاد صباء کے ہاتھ کو بوسہ دیا، پھر ہمیں بیھٹنے کو کہا۔ حال احوال کے بعد استادصباء دشتیاری نے رضاجہانگیر سے پوچھا کون سا کتاب پڑھ رہے ہو۔ اس وقت ہماری اتنی نشوونما نہیں ہوئی تھی، لہٰذا اب یاد نہیں آرہا ہے کس کتاب کا نام لیاگیا تھا، مگر جب انکی بحث شروع ہوئی تو ہم سب چپ ہوگئے اور سنتے رہے۔ کچھ لمحہ گذرنے کے بعد جب چائے لائی گئی تو استاد صباء نے رضا کو یہ کہہ کر بحث بند کر دی کہ اِن جوانوں کو بھی کتاب کی طرف راغب کرو۔ رضا جہانگیر نے جی کہہ کر ہمیں چائے کے ساتھ بسکٹ کا پوچھا۔

یوں اسی طرح یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور ہماری کتاب کی جانب دلچسپی بڑھتی گئی، رضا جہانگیر چونکہ کتابوں سے بہت نزدیک تھا روز ہم سے پوچھتا تھا کون سی کتاب پڑھ رہے ہو اور کیا سیکھ رہے ہو۔ اسی طرح ہمارا اٹھنا بیٹھنا بڑھتا گیا، کبھی تنظیم کے پروگرامز سے کچھ سیکھا تو کبھی صباء دشتیاری، وحید عیدو اور رضا جہانگیر سے۔

اِن تمام کامریڈز جن میں مہراب مری، وحید عیدو، کمال بلوچ، رضا جہانگیر، شکوربلوچ شامل تھے اُن تمام دوستوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور جب کبھی بھی کوئی سیاسی مباحثہ ہوتا، تو رضا جہانگیر کا لہجہ انداز بیان، سیاسی طریقہ اتنا اثر انداز ہوتا کہ شاید بیان کرنے کو الفاظ کم پڑھ جائیں۔ رضاجہانگیر کا استاد صباءدشتیاری کے علاوہ دوسرے اساتذہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات تھے کیونکہ رضاعلم کا پیاسا تھا اور اُن سب سے کچھ سیکھنا چاھتا تھا، وہ ایک طلبا تنظیم کا ممبر تھا لہٰذا سیاسی رویہ اس کے اولین ترجیحات میں شامل تھا۔

رضاجہانگیر پُرامن سیاسی جہدکار کے ساتھ ساتھ ادب سے محبت کرنے والا ایک لکھاری اور شاعر تھا۔ وہ کبھی کبھار استاد صباء کے سامنے اپنا کلام پیش کرتا تو استاد اسکو داد دیکر بحث شروع کرنے کا موقع دیتا تھا اور یوں ہی اُنکی ادبی بحث سلیمانی چائے کے اہتمام کے ساتھ چلتی رہتی۔

عالمی اور علاقائی سیاست، انقلاب سے جڑے عنوان، عالمی شاہکار ناولز اور بلوچ ادب کا مستقبل کچھ ایسے سرحال تھے، جن پر رضاجہانگیر کو بات کرتے ہوءے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ جو بھی لکچر دیتا میں اُنکو بہت غور سے سنا کرتا تھا۔ اسلیئے یہ کہہ کر میں غلط نہیں ہونگا کہ رضاجہانگیر ایک اچھا اسپیکر اور بہت ہی عمدہ اسکلز کا سیاسی کارکن تھا۔

رضا جہانگیر جب شال میں تھےتو وہ ہر وقت کتابیں ہاتھ میں لیئے پھرتے تھے۔ ہر سیاسی اور ادبی بحث میں مصروف دوستوں کی نگرانی کرتا تھا۔ رضا جہانگیر ہمارے ساتھ بہت کم عرصہ رہا لیکن اسکی خوش اخلاقی اور محبت کو میں آج بھی جب یاد کرتا ہوں، تو اس سے جڑی ہر بات یاد آجاتی ہے۔

رضا جہانگیر ایک دن تنظیمی کام کے سلسلے میں کچھ دوستوں کے ساتھ کسی ٹیچر کے پاس گیا، تو اس نے یہ کہہ کر بحث چھیڑ دی کہ بی ایس او والے دوست صباء سے کام لے کر ایک بہت بڑی غلطی کررہے ہیں۔ رضا جہانگیر نے جواب میں کہا کہ جس معاشرے کے دانشوار اور اساتذہ چپ ہوکر دوسروں کا ٹانگ کھینچ لیتے ہیں، وہ معاشرہ یوں ہی ظلم سے آزاد نہیں ہو پاتا، صباء ایک ادیب اور دانشور ہیں وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ آسانی سےکر سکتے ہیں اور بی ایس او کسی کو پابند نہیں کر سکتا۔ ہمارا ایک پیغام ہے جو طلب علموں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کا ہے اور ان کو بلوچ کے تہذیب، کلچر، جیوگرافیا اور قبضہ گیر کے شعور سے آراستہ کرنا ہے تاکہ اپنی زمین اور بقا کے مسئلے کو سمجھ سکیں۔

وہ کبھی بھی جزباتی نہیں ہوا کرتا تھا اور انتہائی خوش مزاجی کے ساتھ سب سے ملتا۔ وقت گزرتا گیا رضاجہانگیر کو دیکھے ہوئے عرصے بیت گئے، کچھ سال گزر گئے ایک دن جب میں علاقے میں تھا تومجھے کسی دوست کا میسج آیا کہ بازار آجاؤ۔ جب میں پہنچا تو دیکھا ایک لڑکا حجام کے پاس بال بنوا رہا تھا۔ اس کے کپڑے اور حالت زار دیکھ کر میرے آنسو بہنے لگے، کہ کیا یہ وہی رضا ہے۔ وہ شاید لمبی سفر سے آرہا تھا اور انہی کپڑوں کے ساتھ واپس کہیں نکل گیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے کہا کہ ہمارا منزل دور ہے لہٰذا کپڑوں کی گندگی کوئی مسئلہ نہیں، اگر زندگی رہی تو دوبارہ ملینگے مگر پھر ہوا ایسے14آگست کی رات اس کی شہادت کی خبر آئی، کچھ منٹ کیلئے اداس رہا اور میرے دل و دماغ میں خاموشی سی چاہ گئی، کچھ لمحات کے بعد میں نے اس دوست اور سیاسی ساتھی کو خراج تحسین پیش کیا، میرا دل اس کی محبت سے بھر گیا تھا اس نے جو کہا تھا وہ کرکے دکھایا، دھرتی ماں کے شہہ مرید نے اپنے ماں کے عظمت کی خاطر اپنے جان کی قربانی دے دی کسی وجہ سے میں اس کا آخری دیدار نہ کر سکا، جس کا ارمان
مجھے آج تک ہے۔

دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔