فورسز نے مزید تین خواتین کو حراست بعد کیمپ منتقل کردیا، ماماقدیر بلوچ

190
File Photo

لاپتہ بلوچ اسیران کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3036 دن مکمل ہوگئے، اس موقعے پر اظہار یکجہتی کرنے والے نوشکی کے سیاسی و سماجی کارکنوں سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایجنسیز کچھ بے گناہ لوگوں کو رہا کردیتے ہیں تو ان کے بدلے میں درجنوں لوگوں کو اغو کیا جاتا ہے، جیسا کہ گوادر سے تین افراد کو آدھی رات کو اغواء کیا گیا جن میں سلمان ولد محراب نوید ولد غلام محمد اور فیصل علی محمد شامل ہیں۔

اسی طرح گومازی میں آپریشن کے دوران درجنوں لوگ لاپتہ کیے گئے ہیں اور مشکے سے تین خواتین کو بھی زبردستی گھروں سے پاکستانی فورسز نے اغوا کیا جن کی شناخت نور ملک زوجہ اللہ بخش اور ان کی بیٹی حسینہ اور ثمینہ اللہ بخش کے ناموں سے ہوئی ہے۔ ان کو اٹھا کر فورسز نے اپنے کیمپ منتقل کیا ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ اس پہلے بھی پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے خواتین کو اغوا کر کے اپنے کیمپوں میں منتقل کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سد آفرین بلوچ قوم کی جذبہ و ایمان کو جو شعوری پختگی کے منازل طے کر رہا ہے اور ہر محاذ پرمقابلہ کرنے کی سکت و ہمت رکھتا ہے، بلوچ کٹ رہا ہے مررہا ہے لیکن اپنی شناخت و تشخص کے بیرک کو سدا بلند رکھے ہوئے ہے جو شہدا کی قربانیوں کے ثمرات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست نے مشکے، آواران، گومازی سمیت کوہلو، ڈیرہ بگٹی، خاران و دیگر علاقوں میں بھی اپنی آپریشن و بربریت کے سلسلے کو پھیلا دیا ہے۔ آج اگر بلوچ قوم غلام نہ ہوتا تو ان کی خواتین اغوا نہیں ہوتے اور ان کی عصمت دری نہ ہوتی۔ لیکن انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے معتبر تنظیم جیساکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن راٹس واچ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بگڑتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنی رپورٹ جاری کرتی رہی ہیں، میں اْمید کرتا ہوں کہ امریکی کانگرس اور بین الاقوامی برادری کی پاکستان پر دباؤ سے بلوچستان میں مثبت تبدیلی ہوگی۔