گمشدہ افراد کی بازیابی میں کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ماما قدیر بلوچ

290

جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3109 دن مکمل ہوگئےـ

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3109 دن ہوگے- جبری طوپر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں جھاؤ سے ایک وفد نے بھوک ہڑتال میں شرکت کی-

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیر مین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کے پاکستانی خفیہ اداروں کے دست راست اور اپنے شیطانی چہرے پر قوم پرستی کا جھوٹا نقاب چڑائے ہوئے کچھ لوگ جھاؤ، کولواہ ل، آواران میں اپنے مکرو عزائم استمال کررہے ہیں۔ پہلے نوجوانوں، بچے بوڑھوں لاپتہ کیا جاتا تھا لیکن اب وہ عورتوں کو اُٹھا کر لاپتہ کراتے ہیں اور ایف سی اور خفیہ اداروں کے کیمپ میں بند کروا کر اُن کی عصت دری کرنے کے بعد اُن پر تشدد کیا جاتا ہے اور بیوشی کی حالت میں اُن کو جنگلوں میں پھنک دیاجاتا- میں اُن کو کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بنگلہ دیش نہیں بلوچستان ہے- بلوچ خواتین کی بے عزتی دور کی بات اُس کو ہاتھ لگانا بھی جرم ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جوں جوں پاکستان کے پارلیمانی انتخابات قریب آتے جار ہے ہیں- پاکستانی گماشتے اپنی وفاداری ثابت کرنے اور آقاؤں کے سامنے اپنی قیمت بڑھانے کے لئے بلوچوں کے خلاف ہرزہ سرائی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی دوڈ میں کچھ زیادہ ہی جست لگارہے ہیں- بلوچستان میں گمشدگی کا مسلہ انتہائی گھمبیر مشکل اختیار کرچکا ہے پہلے گمشدگیوں کا سلسلہ مردوں سے اب خواتین کا سلسلہ تواتر سے جاری و ساری ہے- خواتین کو لاپتہنکرنے کا سلسلہ زرینہ مری سے شروع ہوا- 2001 سے لیکر آج 45000 کارکن گمشدہ ہیں جو خفیہ اداروں کے حراست میں ازیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں- ان میں سے دس ہراز سے زائد ماورائے قانون شہید کردیئے گئے ہیں- یہ سب کے سیاسی کارکن طالبعلم ڈاکٹرز استاتزہ تھے اور ہزاروں بلوچ ابھی تک عقبوت خانوں میں قید ہیں لیکن ابھی تک گمشدہ افراد کی بازیابی میں کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔