کاونٹر انسرجنسی، قابض کی پالیسی – نادر بلوچ

276

کاونٹر انسرجنسی، قابض کی پالیسی

تحریرٖ: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسرجنسیاں، بغاوتیں، یا تحاریک آزادی انسانی تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔عوام اپنے سماج، ملک و مقبوضہ خطے میں آزادی، برابری اور انسانی حق و خوشحالی کو ممکن و یقینی بنانے کیلیے قابض ریاست،ظالم و جابر فوجی حکومتوں، بادشاہوں کے خلاف منظم ہوکر مسلسل جہد کے ذریعے سیاسی و مسلح قوت کو منظم کرکے دشمن قوتوں کے شکست کا سبب بنتی رہی ہے۔

انیسویں صدی کی طاقتور سامراجی ممالک کی حکومتیں ہوں یا دورحاضرمیں غلامی کے خلاف جاری خونی جنگیں، مظلوم و محکوم اقوام کو زیر کرنے کی پالیسیاں اور کوشش آج بھی وہی ہیں، جوگذری صدیوں میں رہی ہیں۔ البتہ ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے و موثر بنانے کیلے تحقیق و سائنس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔

ریاست متحدہ امریکہ کی تاریخ کا جاہزہ لیں تو اسکی آزادی بھی دنیا کی طاقتور کالونائزر برطانیہ سے ممکن ہوئی ہے۔ آزادی کی جنگ کو امریکی عوام نے غیر روائتی انداز میں لڑی، جسکو آج گوریلہ جنگ کہتے ہیں۔ ممالک آپس میں جنگیں لڑتی ہیں، تو روایتی جنگ کہی جاتی ہے۔ یکساں دشمن کی پہچان ہوتی ہے۔ جنگ کیلئے ان افواج کو تربیت دی گئی ہوتی ہے، وہ یہ جنگ آسانی سے لڑ سکتے ہیں۔ جبکہ گوریلا جہنگ “غیر روایتی” شمار ہوتی ہے۔ طریقہ کار روایتی فوج کی تربیت اور جنگی اصولوں سے مختلف ہوتی ہیں اس لیئے قبضہ گیر فوج کومحدود وسائل سے نقصان دینے کیلئے بہترین طریقہ کار گوریلا اصول ہوتی ہیں۔ اسکا کوئی مرکز نہیں، نہ ہی انکی کوئی پہچان و شناخت ہوتی ہے اور نہ ہی دشمن کو ان کے حملوں کے احداف کا معلوم ہوتا ہے۔

دنیا بھر کی طاقتور ترین افواج آج بھی اس غیر روایتی جنگ اور حکمت عملی سے پریشان ہیں، ویتنام میں امریکی شکست ہو یا، عراق، افغانستان میں جاری فوج کشی، امریکی فوجی پالیسیاں بنانے والے آج بھی اس بحث میں مصروف ہیں کہ ایک روایتی جنگ لڑنے والی فوج، گوریلہ جنگ لڑنے والی غیر روایتی دشمن سے کیسے لڑے۔

پالیسی سازوں کی مشکلات، روایتی فوج کی واضح شناخت، معلوم مراکز، کھلے عام نقل و حرکت، نفری کا زیادہ ہونا، مقامی زبان و ثقافت، جغرافیہ سے نابلد ہونا، قبضہ گیرو درآمد قوتوں کی کمزوریوں میں شمار ہوتی ہیں۔ جسکے سبب تحریکوں کو صرف فوجی قوت سے کچلنا ممکن نہیں ہوتا۔ جنگ اور مزاحمت سے نمٹنے کیلئے قابض قوتیں کاونٹر انسرجنسی پالیسیاں اپناتی ہیں۔

حملہ آور ریاستیں، اپنی غیرقانونی اقدام پر پردہ ڈالنے اور مقبوضہ خطے کے عوام کو مزاحمت سے دور رکھنے کیلئے خطے میں انسرجنسی کی موجودگی سے انکار کرتی ہیں۔ فوجی نقصان کو کم کرنے کیلئے ایسی کاونٹر پالیسیاں اپناتی ہیں۔ مسئلے سے توجہ ہٹانے اور جنگ کی دورانیئے کو مختصر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فوجی نقصانات قابض ریاست کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں کیونکہ ان ملکوں کی عوام جانی، مالی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ ہو جاتی ہیں اورحکمرانوں کی ایسی پالیسیوں کی مخالفت شروع کردیتی ہیں۔

اسکی مثال ویتنام جنگ میں امریکی عوام کی جانب سے حکومت کے خلاف جنگ ختم کرنے کا دباو، احتجاجی مظاہروں سے ہوتی ہے، جسکی وجہ سے امریکی افواج کو ویتنام سے واپسی کرنی پڑی۔حالیہ دور کی شام، عراق، یمن میں ایرانی افواج کا براہ راست حصہ لینا اور جانی و مالی نقصانات کے سامنے آنے کے بعد ایرانی عوام کی جانب سے حکومت مخالف مظاہروں نے ایرانی حکومت کو پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے۔

ایک غیر معلوم دشمن ریگولر افواج کیلئے ہمیشہ پریشانی،جانی و مالی نقصان کا سبب بنتی ہے۔انکا مورل کمزور ہوتا جاتا ہے۔ گوریلا جنگ ایک تھکا دینے والی جنگ ہوتی ہے، جسکی جاری و مکمل ہونے کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا، جبکہ روائتی جنگوں میں افواج کی ہر پالیسی کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار، ایک معینہ وقت کا محتاج ہوتا ہے۔ پاکستانی افواج کی جانب سے ضرب عضب، راہ راست، رد الفساد، وغیرہ ایک کے بعد دوسری ناکامیاں روایتی فوج کی ناکامیوں میں شمار کی جاسکتی ہیں۔

بلوچستان میں جاری تحریک آزادی اور قابض ریاست کی کاونٹرانسرجنسی پالیسیوں کا تقابلی جائزہ لیں، تو ریاستی پالیسیوں اور قومی تحریک کی جاری سفر کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ قابض ریاست اپنے افواج اور تنصیبات کو نقصان سے بچانے کیلئے مقامی آبادی سے مسلح قوتیں تشکیل دیکر آزادی پسندوں اور انقلابیوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں، تاکہ قابض کا خون بہنے کی بجائے مقامی آبادی کا خون بہا کر اس جنگ کو مقامی جنگ بنا کر پیش کیا جاسکے اور قابض افواج کے نقصان کو کم سے کم کی جائے۔ مقامی آبادی کو تحریک سے دور کرنے کیلئے مختلف معاشی، سماجی سہولتیں دیکرقومی تحریک سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نام نہاد سیاسی اور سماجی سرگرمیاں، ٹیکس چھوٹ، مقدمات ختم کرنا، غیر قانونی کاروبار، وقتی مراعات کی بھر مار اصل میں، اسکے بدلے انکی آزادی کوسلب اورچھیننے کی قیمت پر دی جارہی ہوتی ہے۔

قابض ریاست کی پالیسی سازوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ وہ ایک ایسی تحریک کا سامنا کر رہے ہیں، جس کو شکست دینا ناممکنات میں شمار ہوتی ہے، اس لیئے کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے ایجنسیوں کے مراکز میں اضافہ کر کے مقامی افراد کے بھرتیوں کے ذریعہ قومی غلامی کو یقینی بنانے، آزادی پسندوں کے خلاف پیسہ، طاقت استعمال کر کے تحریک کو کمزور اور قومی نظریہ آزادی کو نقصان دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ریاست اپنی تمام قوت اور اداروں کو جاری تحریک کو دائمی شکست دینے کیلئے مقامی افراد میں سیاسی ایجنٹ پیدا کرکے قوم کی آواز کو دبانے کیلئے، جعلی سیاسی قوتیں متعارف کرتی ہے۔ تاکہ سیاسی، سماجی، معاشی قوتیں تشکیل دیکر قومی تحریک کے خلاف استعمال کرکے تحریک میں شامل جہد کاروں اور عوام کی توجہ قابض سے ہٹایا جائے اور مقامیوں میں آپسی رسہ کشی شروع کروائی جاسکے۔

دور جدید میں سائنسی ترقیوں نے جس طرح قابض ریاستوں کو قوت بخشی ہے۔ ٹیکنالوجی اور سماجی علوم کا استعمال کر کے مظلوم و محکوم قوموں کو غلام رکھ سکیں۔ محکوم اقوام بھی جدید علمی قوت حاصل کرکے ان کاونٹر انسرجنسی پالیسیوں سے نمٹنے کیلئے “رد کاونٹر انسرجنسی” کی پالیسیاں بنا کر، قومی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہیں۔ قابض کی چالوں پر باریک نظر رکھ کر جائزہ لیں، ظاہر اور پوشیدہ کاونٹر انسرجنسی پالیسوں کو شکست دینے کیلئے ریاستی اداروں کے مدمقابل پالیسی ساز ادارہ تشکیل دیکر طویل و کم مدتی پالیسیاں ترتیب دیکر، ان مکرہ عزائم کو عوام کی طاقت اور مخلص جہد کار متحرک رہ کر ناکام بنا سکتے ہیں۔