نیشنل ازم قومی ضرورت – نادر بلوچ

666

نیشنل ازم قومی ضرورت

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

قومی یکجہتی اور تحریک آزادی میں کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے نیشنل ازم کو اسکے اصل روح کے مطابق اپنانا ہوگا۔ قوم پرستی کو اجاگر کرکے ہی قوم کو درپیش مسائل اور مشکلات کے حل کے لیئے نمٹنے کیلئے تیاری کی جاسکتی ہے۔ قوم پرستی کو مٹانے کیلئے جن قوتوں کو بلوچ سماج میں متحرک کیا گیا ہے، ان کے بارے میں باریک بینی سے جائزہ لیکر قوم کو انکی اصلیت اور مکروہ مقاصد سے آگاہ کی جانی چاہیئے۔ نیشنل ازم ہی بلوچ قومی سماج کی بنیاد ہے،جسکی تشکیل ہزاروں سال پہلے ہوئی ہے۔ گذشتہ دو صدیوں سے انگریز سمیت پنجابی قبضہ گیروں کا ہدف قوم پرستی کی اس بنیادی ستون کو نقصان دیکر بلوچ سماج کے حصے بخیرے کرنے کی پالیسیاں ہنوز جاری ہیں۔

سوشل ازم کے عروج کے دنوں میں بھی جب بلوچ نوجوان روس کی جانب متوجہ ہوئے تو نہ چاہتے ہوئے بھی نیشنل ازم کو نقصان دے بیٹھے اور یوں بلوچ قوم اپنی مرکزی ستون سے دور ہوتی گئی۔ اگر ہم دنیا کے ان قدیم اقوام کی تاریخوں کا جائزہ لیں جنکی بنیاد نیشنل ازم تھی اور قوم پرستی سے دوری انکی تباہی اور بربادی بنی، آج تاریخ میں وہ صرف نام بنکر رہ گئے ہیں۔

جدید نیشنل ازم کا امین بھی بلوچ قوم ہی ہے اور اسکے دائرہ کار کا تعین کرنا بھی قومی اور سیاسی فرائض میں شمار ہوتا ہے۔ بلوچ قوم گذشتہ دو صدی سے بھی زیادہ جن حالات کا شکار رہی ہے، جن میں قومی غلامی، معاشی بد حالی، قبائلی کشت و خون، سیاسی انارکی، اگر انکا بغور اور علمی مشاہدہ کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا ہرگز مشکل نہیں ہوگا کہ جب جب قوم اپنے مرکز سے دور ہوتی ہے، تب نیشل ازم سے فاصلے رکھنا قومی، سماجی، اور معاشرتی زوال کا سبب بنی ہے۔ تاریخ کے جن پرنوں پر قوم پرستی کو اجاگر کرنے کے اقدامات کا جائزہ لیں، تو ان ادوار میں بلوچ قوم اور وطن روشن و سرخرو نظر آتی ہے۔ اپنی اصل شناخت رکھنا ہی انسانی وجود و تاریخ کی جانب قدم ہے، اسی شناخت کے لیئے تاریخ کے عظیم کرداروں نے خونی اور تباہی کے جنگوں میں قدم رکھا، سچ اور حقیقت کیلئے سقراط نے زہر کا پیالہ نوش کیا، تاکہ حقیت کو سامنے لایا جاسکے کیوںکہ اسی میں کامیابی ہے۔

بلوچ نیشنل ازم کو اجاگر کرنے کیلئے تاریخ کے صفحات کو پلٹنا ہوگا، جن میں نیشنل ازم کے رنگوں کو درس و تدریس ، پنت و نصیحت کا حصہ بنایا جاسکے۔ قول و فعل، بھائی چارہ، اخوت، صبر و استقامت کیلئے جو اقوال ہزاروں سالوں سے ہمارے ثقافت و تہذیب کی نگہبانی اور حفاظت کرتی رہی ہیں انکو قومی احساس و فکر کیلئے استعمال میں لایا جائے۔ زبان بہ زبان خلقی گیتوں اور قصہ کہانیوں کو قومپرستی کا شکل دینے کیلئے نوجوانوں اور سیاسی سرکلز میں بحث و مباحثہ، غور و خوز کیلئے پیش کی جاسکتی ہے۔ بلوچ قوم کی تشکیل نیشنل ازم کی بنیاد پر ہے۔ اسی خمیر سے قوم کو اسکی حقیقت سے روشناس کی جاسکتی ہے۔

صدیوں کی تاریخی ظلم و جبر،عروج و زوال کی روشنایوں و تاریکیوں، استحصالی منصوبوں، جغرافیائی تقسیم در تقسیم نے بلوچ نیشنل ازم کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ زبان، رنگ، نسل، قبیلہ، علاقہ، مذہب، فرقہ واریت، طبقاتی تقسیم، سرد و گرم جیسی زہریلی پروپگینڈوں کے ذریعے سے قوم پرستی کے دشمن قوتیں حملہ آور ہوتی رہی ہیں، جہنوں نے بلوچ سماج کو کشت و خون، نفرتیں، اور سیاسی و سماجی ناہمواری جیسی دلدل میں دھکیل کر بلوچ قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کر کے بلوچ قوم اور آنے والی نسلوں کو غلامی اور بےبسی کی تاریخ میں دائمی سزا دینے کی کوشش کررہی ہیں۔

قوم پرستی کی بنیاد پر دنیا میں آباد بلوچ قوم کو انکی شناخت کو لاحق خطرات کا احساس دلاکر قومی تشکیل کو مکمل کرنے کیلئے کردار ادا کرنے، قومی فریضہ ادا کرنے کی جانب متوجہ کی جاسکتی ہے۔ بلوچ قوم بلوچستان، کراچی سمیت اندرون سندھ، پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، مظفرگڑھ سمیت دیگر علاقوں میں آباد ہیں، جنکو قومی شناخت سے واقفیت کیلئے نیشنل ازم کی روح سے متعارف کرکے ہی بلوچستان میں جاری ظلم و جبر، دکھ درد کو محسوس کروایا جاسکتا ہے۔ نیشنل ازم کی بنیاد پر ہی ایران و افغانستان میں رہنے والے بلوچ اپنی قومی شناخت کی علامت بلوچستان کی مقبوضہ حیثیت کی خلاف ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر قومی غلامی کے خلاف برسرپیکار جہد میں شامل ہونے کیلے صف آراء ہونگے۔

بلوچ قوم، قومی غلامی، سمیت معاشی، سیاسی، معاشرتی استحصال کا شکار ہوتی رہی ہیں، جسکی وجہ سے تعلیم وترقی کے عمل میں دنیا میں آباد دوسرے اقوام سے پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ جدید علوم کو استعمال کر کے قومی خوشحالی کو ممکن بنایا جاسکے لیکن ساتھ ساتھ ان علوم میں شامل اس مواد کو جو جدید نیشنل ازم کو نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہو انکو بلوچ سماج میں متعارف کرنے سے اجتناب کی جانی چاہیئے۔ اسی طرح جو قدیم علم موجود ہیں، ان سے بھی رہنمائی حاصل کی جانی چاہیئے لیکن وہاں بھی اس امر کو ذہن نشین کرنی ہوگی کہ وہ بلوچ نیشنل ازم سے متصادم تو نہیں۔

بلوچ قوم کی شعوری بنیادوں پر نیشنل ازم کی جانب لوٹنے کیلئے، تیار کرنے کیلیے ضروری ہے کہ سیاسی کارکن، جماعتیں، دانشور ، ادیب، قلم کار، فنکار اور فنون لطیفہ سے وابسطہ دیگر کردار قوم کی رہنماہی کیلئے قومی دائرے کا تعین کریں اور اسکی تشکیل نیشنل ازم کی بنیاد پر کریں۔