مذہب، انقلاب اور بلوچستان – اسیر بلوچ

525

مذہب، انقلاب اور بلوچستان

تحریر: اسیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مذہب کا لفظی معنی راستہ یا طریقہ ہے۔ انگریزی لفظ Religion کا ماخذ لاطینی لفظ religio یعنی امتناع، پابندی ہے۔ ویبسٹر کی انگریزی لغت میں Religion کی جو تعریف کی گئی ہے، اس سے ملتا جلتا مفہوم مقتدرہ قومی زبان کی انگریزی اردو لغت میں بھی دیا گیا ہے، جو یوں ہے:

”مافوق الفطرت قوت کو اطاعت، عزت اور عبادت کے لیئے بااختیار تسلیم کرنے کا عمل؛ اس قسم کی مختار قوت کو تسلیم کرنے والوں کایہ احساس یا روحانی رویہ اور اس کا ان کی زندگی اور طرز زیست سے اظہار؛ متبرک رسوم و رواج یا اعمال کے سر انجام دیئے جانے کا عمل؛ خدائے واحد و مطلق یا ایک یا زیادہ دیوتاؤں پر ایمان لانے اور ان کی عبادت کا ایک مخصوص نظام۔“

بہ الفاظ دیگر کسی مخصوص علاقے کی مذہبی روایات کی تہہ میں وہاں کے لوگوں کا، کائنات کو دیکھنے اور سمجھنے کا انداز کار فرما ہوتا ہے۔ مثلاً زراعتی معاشروں میں بارش کا دیوتا ہوتا ہے، تو خانہ بدوش معاشروں میں شکار کا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ مذہب اپنے سے متعلقہ علاقے کے لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ کہنا چاہیئے کہ کسی خطے کے لوگ اپنے روحانی تقاضے پورے کرنے کے لیئے جو امتناعات، پابندیاں، اُصول و قوانین، ضوابط وغیرہ عائد کرتے ہیں، اُن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے۔

لیکن دنیا میں آج تک انسانیت کا خون بہنے کی ایک ہی وجہ ہے، مذہب اور ایک مذہب کے ماننے والے لوگوں کا اپنے فرقے کو سچا قرار دے کر لوگوں کا قتل عام کرنا.

آج سے تقریباً پانچ سو سال قبل یورپ میں مسیحیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ایک کروڑ سے زائد لوگ مارے گئے تھے؟ یہ جنگیں وقفے وقفے سے ایک سو بیس سالوں تک جاری رہیں، جن کی لپیٹ میں آکر تقریباً پورا یورپ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک میدان جنگ بنا رہا۔

اسی طرح مذہبی جنگ نے افغانستان کو اپنے لپٹ میں لے کر لاکھوں بے گناہ لوگوں کو نگل لیا, اسی طرح شام میں مذہبی جنگ نے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا۔ افغانستان سے لیکر شام تک کے حالات چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بستیاں اجاڑ رہے ہیں۔

خیر یہ تو ہوئی مذہب کی تعریف اور اسکے نقصانات،دوسری جانب انقلاب نے ہمیشہ ظلم اور ستم کے خلاف ڈٹ کر کھڑنے ہونے کو ترجیح دی ہے۔ چاہے وہ ظلم مذہبی ہو یا سامراجی۔

انقلاب نے ہمیشہ طاقتور سے مظلوم کو نجات دلایا ہے، انقلاب نے ہمیشہ ڈاکٹر چی گویرہ, نیسلن منڈیلا اور ہزاروں ایسے رہنما پیدا کیئے، جو ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے. لیکن مذہب نے ہمیشہ انسانی روپ میں جلاد پیدا کیئے، جو مذہب کے نام پر کروڑں لوگوں کے قتل عام کا باعث بنے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عقلمند دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتا ہے لیکن بیوقوف اپنی غلطیوں سے بھی سبق حاصل نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ گھٹنوں کے بل رینگتا ہوا ایک بچہ، جو ابھی اس قابل نہیں ہوا کہ دوسروں کے تجربات سے سیکھ سکے، جب کسی گرم چیز کو چھو کر اپنا ہاتھ جلا لیتا ہے، تو دوبارہ اس شے کے قریب پھٹکنےسے بھی گریز کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو دوسروں کی غلطیوں سے تو کجا اپنی غلطیوں سے بھی سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش و خرد سے کام لیں اور جنت , دوزخ , انقلاب اور آزادی میں فرق کریں۔ اگر ہم اسلامی عقیدے اور انقلابی عقیدے کو ایک ساتھ ملا کر کھیلتے رہیں گے، تو ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ہماری بستی کا کوئی بھی گھراس آگ سے محفوظ نہیں رہے گا، آزادی تو دور ہم غلامی کے بدترین دور میں چلے جائیں گے۔