خواتین کو نظر انداز کرکے آگے جانے کی سوچ کم فہمی ہوگا – یاسمین لہڑی

537

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لگے کئی درجن بینروں اور پوسٹروں میں ایک تصویر یاسمین لہڑی کی بھی ہے جو پی بی 32 سے عام نشست پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔ اس سے قبل وہ مخصوص نشستوں پر بلوچستان اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔

یاسمین لہڑی کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں پر جو پارٹی کے مرد اراکین جیت کر آتے ہیں ان کے کوٹے پر خواتین کو مخصوص نشستوں پر منتخب کیا جاتا ہے، جبکہ عام نشستوں پر خواتین کو خود لڑنا ہوتا ہے، عوام سے مینڈیٹ ملتا ہے جس سے خواتین پراعتماد محسوس کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اسمبلی کے اندر بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم مخصوص نشست پر آئے ہیں۔ ہمت افزائی ہوتی ہے اور اعتماد کے ساتھ ہی عوام کا مقدمہ لڑا جا سکتا ہے۔‘

یاسمین لہڑی صوبائی محکمہ جنگلات، ماحولیات، آبپاشی کی قائمہ کمیٹی کی رکن رہی ہیں جبکہ پینل میں شامل ہونے کی وجہ سے بعض مرتبہ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کے بھی فرائض بھی سر انجام دے چکی ہیں۔

یاسمن لہڑی کا کہنا ہے کہ ان جیسی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ جب وہ سیاسی نظام کا حصہ بنیں آہستہ آہستہ لوگوں کی ذہنیت تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہے۔

’ہم شارٹ کٹ کی پیداوار نہیں ہیں، مخصوص نشستوں پر جو پہلے خواتین آتی تھیں وہ روایتی قسم کی ہوتی تھیں یا مختلف سیاسی خاندان اسے بالکل ایک فارمیلٹی کے طور پر لیتے تھے۔ لہذا اپنے خاندان کی خواتین کو لاکر نشستوں پر بٹھا دیتے تھے لیکن اب صورتحال پختگی کی طرف جارہی ہے۔‘

یاسمین لہڑی کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں ایسے کئی اراکین تھے جو کئی سالوں سے جیت کر آ رہے ہیں اور انھوں نے چپ کے تالے لگائے ہوتے ہیں اس قدر کے عوام کے مسائل پر بھی لب کشائی نہیں کرتے تھے۔

’مخصوص نشستوں پر بھی کچھ ایسی خواتین ہیں جو دوسری تیسری بار ایوان میں آئیں لیکن ان کی کارکردگی پہلے اتنی بہتر نہیں تھی لیکن جب سے ہم جیسے لوگ گئے ہیں تو انھوں نے چپ کے تالے توڑے۔‘

بلوچستان میں پہلی بار بڑی تعداد میں خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، جن میں یاسمین لہڑی کے علاوہ سابق سپیکر راحیلہ درانی، سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال بھی شامل ہیں لیکن قوم پرست جماعتوں سمیت تمام جماعتوں کے اجتماعات میں خواتین کی عدم شرکت رہتی ہے۔

یاسمین لہڑی تسلیم کرتی ہیں کہ خواتین میں عوامی اجتماعات میں شرکت کا رجحان بہت کم ہے لیکن یہ ہے کہ عورتوں کا جو کردار ہے وہ الیکشن اور ووٹنگ میں بہت زیادہ ہے۔ خواتین کی آبادی 52 فیصد ہے انہیں نظر انداز کرکے ہم آگے جانے کا سوچ رہے ہیں تو یہ ہماری کم فہمی ہو سکتی ہے۔ جب تک خواتین انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنتی ہیں اس وقت تک ہمارا سیاسی نظام مائنس ویمن نظام ہے۔

کوئٹہ شہر کے علاقے سریاب روڈ کی نشست پی بی 32 پر اکثریت مرد امیدوار ہیں، جن کا تعلق سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ مقامی بڑے قبائل سے بھی ہے۔

یاسمین لہڑی کا کہنا ہے کہ یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے، یہ مردانہ معاشرہ ہے اور ہمارے لوگوں کے مائینڈ سیٹ جس طرح بنے ہیں وہ یہ ہے کہ امیر معتبر سٹائل کے لوگ جب آئیں گے تو پھر لوگ اس طرف متوجہ ہوں گے، مڈل کلاس اور جو پڑھا لکھا طبقہ ہے اس کی طرف توجہ اتنی جاتی نہیں۔ جیسے ڈاکٹر مالک کی قیادت میں حکومت آئی اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مڈل کلاس کے جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں اس سے صوبے میں ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔

یاسمین لہڑی بتاتی ہیں کہ ان کے حلقے میں خواتین، بچوں، معذوروں اور نوجوانوں کے مسائل ہیں۔ نوجوانوں کو ہم نے اہمیت نہیں دی ہے، صحت اور تعلیم کے جو مسائل ہیں وہ میری توجہ کا مرکز ہی ہوں گے اور اس حوالے سے ہی قانون سازی پر میری توجہ زیادہ ہوگی۔

نیشنل پارٹی بلوچستان میں ڈھائی سال اتحادی حکومت کا حصہ رہی، حالیہ انتخابات میں انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ یاسمین لہڑی کہتی ہے کہ جو جماعت حکومت میں ہوتی ہے زیادہ مشکلات کے سامنا کرتی ہے، ظاہر ہے کہ لوگوں کے توقعات بہت زیاد ہوتی ہیں اور جو بلوچستان کے معروضی حالات ہیں جس طرح سے یہاں حکومتیں بنتی ہیں کبھی بھی کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بنی ہمیشہ سے مخلوط حکومت بنتی ہے۔

’اتحادی حکومت کے اپنے مسائل اور دشواریاں ہوتی ہیں اس میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو برسوں کے کھلاڑی ہیں اور برسوں سے جیت کر آرہے ہوتے ہیں وہ اپنی روایتی نشست سمجھتے ہیں اور ان کے مائینڈ سیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے چیزوں کو آگے لے جانا کسی چیلنج سے کم نہیں اس کے باوجود نیشنل پارٹی نے کوشش کی کہ اچھی بنیادیں رکھیں۔‘