جمہوریت سے ناآشنا ریاستی انتخابات – شہزاد بلوچ

344

جمہوریت سے ناآشنا ریاستی انتخابات

تحریر: شہزاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جمہوریت کی دھجیاں اڑانے والے ریاست میں ان دنوں عوام کو لوڈشیڈنگ اور پانی کے قلت کے بارے میں سوچنے کے علاوہ ایک نیا موضوع مل چکا ہے، جسکا پرچار الیکشن کے نام سے ہورہا ہے۔ کچھ روز قبل پاکستانی فوج کے زیر اثر چلنے والے الیکٹرانک میڈیا کے ایک چینل پر ایک شخص کو دکھایا گیا، جس میں اس سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آخر یہ دھاندلی ہوتی کیا ہے؟ تو اس شخص نے بہت پر اعتماد لہجے میں کہا کہ دھاندلی تو وہ تیز والی بارش ہوتی ہے، جب کوئی طوفان آجائے تو اسے دھاندلی کہا جاتا ہے۔

یہ تو ہے ان بیچارے لوگوں کی رائے، جن کو سیاسی کھلاڑی ووٹ کی اہمیت پر صحیفے سنا کر پولنگ اسٹیشن میں اپنے مقاصد میں کامیاب کرنے کے لیئے گھسیٹ کرلے جاتے ہیں۔ جس ملک کے لوگ اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے اعمال سے ناواقف ہوں، تو ان سیاستدانوں کا وہاں احتساب کرنے والا کون ہوگا؟ عام لوگوں کو اس جنگل نما ریاست میں فوج کے بچھائے ہوئے اس جال میں کچھ اس طرح پھنسایا جا چکا ہے کہ ان میں اتنا سوچنے کی صلاحیت بھی نہیں کہ وہ ٹوٹتی اور بنتی اسمبلیوں کے پیچھے بسنے والے ان مکار چہروں کو پہچان سکیں اور یہ وہی لوگ ہیں، جنہیں کوئی خلائی مخلوق تو کوئی فرشتوں کے نام سے پکارتا ہے۔

بھوک اور غربت سے تڑپتے بے شعور لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انکی اس حالت میں پہنچانے والے یہی فوجی ادارے ہیں، مگر عوام کی آنکھوں میں اس فوج نے اپنی جھوٹی تعریفوں اور رنگ برنگی وردیوں سے کچھ اس طرح دھول جھونکی ہے کہ انکو یہ قاتل فوج ایک مسیحا نظر آتی ہے۔

ایک طرف یہ فوج اے پی ایس اسکول پر حملہ کرواکر بہت سے بچوں کو قتل کرتی ہے، تو دوسری جانب ایک قومی نغمہ بنا کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہے۔ ایک جانب بلوچستان میں فوجی آپریشن کرکے وہاں کے نہتے اور معصوم لوگوں کو بے دردی سے قتل کردیتی ہے تو دوسری جانب سی پیک کا نعرہ لگا کر عام لوگوں کو بیوقوف بناتی ہے۔ ریاستیں اس طرح نہیں چل سکتی ہیں کہ اس میں بسنے والے لوگوں کو اندھیروں میں دھکیل کر خود کو آگے بڑھا سکے۔

عجیب بات ہے کہ پاکستان میں فوج کبھی کسی اناڑی کو اختیارات سونپتی ہے، تو کبھی کسی کرکٹ کھلاڑی کو حکمرانی سکھاتی ہے۔ مگر الیکشن کی آمد پر بلوچستان کی صورتحال دن بہ دن خطرناک صورت اختیار کررہی ہے۔ آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیئے ریاست اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ ایک جانب پاکستانی میڈیا وہاں پر فوج کے زیر سایہ ہونے والے الیکشن کا ڈرامہ دکھاتی ہے اور دوسری جانب فوج وہاں کے سینکڑوں گھروں کو آگ لگا دیتی ہے، اور یہ خبر اس میڈیا میں ہمیشہ کی طرح کوئی جگہ نہیں بنا پاتی۔ ایسا کوئی دن نہیں کہ بلوچستان سے کسی بلوچ فرزند کو اغوا نہ کرایا جاتا ہو یا کسی کی لاش نہ گرائی جاتی ہو۔

جن علاقوں میں بلوچ آزادی پسندوں کی مکمل گرفت ہے، وہاں پر زبردستی عوام میں خوف پھیلانے کے لیئے بلوچ عورتوں اور بچوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے، جو ایک غیر شرعی اور غیر انسانی عمل ہے۔ وہ لوگ جو بلوچ قومی تحریک سے منسلک ہیں، انکو اپنے جدوجہد سے دستبردار کرنے کے لیئے ریاست آئے روز اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرہی ہے۔ مگر انکو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ بلوچ قومی تحریک آج جس مقام پر کھڑا ہے، وہ انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ ریاست کی اس طرح کے عمل سے خائف ہوتے، تو وہ کبھی اس عظیم مقصد میں خود کو شریک سفر نہ کرتے۔

پرامن جہد کاروں، طالب علموں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو اغوا کرکے اس ریاست نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی بھی پامالی کی ہے۔ جس میں وہ عدم تشدد اور اظہار رائے کی آزادی کی بات کرتے ہیں، مگر بلوچستان میں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ آج بلوچستان میں ایسا کوئی گھر نہیں جو ریاست کی لگائی ہوئی نہ بھجنے والی آگ سے محفوظ رہا ہو۔

گذشتہ الیکشن کی طرح بلوچ آزادی پسند تنظیموں نے اس دفعہ بھی اس نام نہاد الیکشن کا بائیکاٹ کا اعلان کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم اس قابض ریاست کے انتخابات سے خود کو اور اپنی قوم کو اس لئے دور رکھیں گے تاکہ بلوچ قوم کو اس ریاست سے چھٹکارہ مل جائے اور بین الاقوامی قوتوں کو یہ باور کرایا جائے کہ بلوچ ہر دفعہ ایکشن کا بائیکاٹ کرکے اپنا ووٹ آزادی کے حق میں استعمال کررہا ہے اور آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔