بلوچستان میں توجہ ہٹانے کیلئے چند افراد رہا کئے گئے: ماما قدیر بلوچ

165

جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے لگائے گئے کیمپ کو 3120دن مکمل ہوگئے۔

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کی جانب سے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3120دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ نیشنل موؤمنٹ گوادر کے وفد نے کیمپ کا دورہ کر کے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی، اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہزاروں معصوم شہری لاپتہ ہے، بلوچوں کو زہر عتاب رکھنے کیلئے انہیں اغواء کیا جارہا ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی حقیقی اعداد و شمار 45000ہیں۔حکومت نے متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہم فراہمی کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔سن 2000سے لیکر 2018ء تک پینتالیس ہزار افراد کو لاپتہ کیا جاچکا ہے جن میں سے دس ہزار سے زاہد کو شہید کرکے ویرانوں میں پھینک دیا گیا ہے اور ان لاشوں کا تعلق جبری طور پر لاپتہ افراد کے اس گروہ سے ہے جن کا وجود فورسز کے لئے ایک سوالیہ نشان رہا ہے۔یہ بات زبان زد عام ہے کہ پاکستانی فورسز اور اس کے ذیلی فورسز حراست میں لئے گئے افراد کے ساتھ ٹارچر سیلوں میں غیر انسانی سلوک کے لئے شہرت رکھتے ہیں جبکہ اس کا انکشاف ان افراد کی جانب سے ہوا ہے جو حراستی مراکز سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فورسز نے ممکنہ طور پر لاپتہ افراد کی لاشوں سے گلو خلاصی کرنے اور ہیومن رائٹس کی توجہ ہٹانے کے لئے چند افراد کے رہائی کے اقدامات اٹھائے ہیں۔گمشدگیوں کا سلسلہ مشرف حکومت کے دور سے شروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔