اسرائیل کو ‘یہودی قومی ریاست’ قرار دینے کا قانون منظور

208

بِل کی منظوری کے بعد ایوان میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اس قانون کے ذریعے اسرائیل نے اپنے وجود کی بنیاد کا تعین کردیا ہے۔

اسرائیل کی پارلیمان نے ایک متنازع مسودۂ قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اسرائیل میں صرف یہودیوں کو خود مختاری حاصل ہوگی جب کہ ریاستی سطح پر یہودی آباد کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

“قومی ریاست” کے عنوان سے پیش کیے جانے والے اس بِل کو اسرائیلی پارلیمان نے آٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والی گرما گرم بحث کے بعد جمعرات کو علی الصباح 55 کے مقابلے میں 62 ووٹوں سے منظور کرلیا۔

اسرائیلی پارلیمان کے عرب ارکان نے مجوزہ قانون کی سخت مخالفت کی اور اسے “جمہوریت کی موت” اوراسرائیل میں “نسل پرستی کی انتہا” قرار دیتے ہوئے ایوان میں بِل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

لیکن اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بِل کی منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے “صیہونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل” قرار دیا ہے۔

اسرائیل کے قیام کے 70 برس بعد منظور کیے جانے والے اس قانون میں کہا گیا ہے کہ “اسرائیل تاریخی طور پر یہودیوں کا وطن ہے اور انہیں یہاں دوسروں سے زیادہ قومی خود مختاری حاصل ہے۔”

تاہم قانون میں اسرائیل کے تمام رہائشیوں کو بھی ان کی مذہبی وابستگی سے قطعِ نظر اپنے تاریخی ورثے کے تحفظ کا حق دیا گیا ہے۔

بِل کے ابتدائی مسودے میں شامل ایک شق کو کئی حلقوں کی کڑی تنقید کے بعد بِل سے نکال دیا گیا تھا جس میں اسرائیل میں ایسی بستیوں کے قیام کی اجازت دی گئی تھی جہاں صرف یہودی آباد ہوں۔ بِل کی اس شق پر تنقید کرنے والوں میں اسرائیل کے صدرریوون رِولن بھی شامل تھے۔

بِل کی منظوری کے بعد ایوان میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اس قانون کے ذریعے اسرائیل نے اپنے وجود کی بنیاد کا تعین کردیا ہے کہ یہ ملک یہودیوں کی قومی ریاست ہے جو اپنے تمام شہریوں کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔

لیکن اسرائیلی وزیرِ اعظم کی اس یقین دہانی کے باوجود کہ اس قانون کی منظوری سے اسرائیل میں آباد عربوں کے شہری حقوق متاثر نہیں ہوں گے، اسرائیلی پارلیمان کے عرب ارکان اس بِل کے شدید مخالف ہیں اور اسے اسرائیل میں آباد اقلیتوں کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔

قانون میں ایک ایسی شق بھی شامل ہے جس کے ذریعے عربی کو اسرائیل کی سرکاری زبان کے درجے سے گھٹاکر “خصوصی مقام” رکھنے والی زبان کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ بِل کے تحت عبرانی اب اسرائیل کی واحد سرکاری زبان ہوگی۔

بِل پر پارلیمان میں بحث کے دوران ایک عرب رکن نے مجوزہ قانون کو “نسل پرستی” پر مبنی قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اسرائیلی حکومت عربی زبان سے خوف زدہ ہے۔

گو کہ اسرائیل کے عرب شہریوں کو آئینی طور پر یکساں حقوق حاصل ہیں لیکن وہ ہمیشہ اپنے ساتھ سرکاری طور پر امتیازی سلوک روا رکھے جانے کی شکایت کرتے رہے ہیں۔

اسرائیل کی کل آباد 80 لاکھ سے زائد ہے جس میں عربوں کا تناسب 5ء17 فی صد ہے۔