کبھی خوابوں پہ مرتا ہوں، کبھی تعبیر مارے ہے – میر سانول بلوچ

347

کبھی خوابوں پہ مرتا ہوں، کبھی تعبیر مارے ہے

میر سانول بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آزادی کے جنگ میں جب ایک نئی شدت آئی تو بہت سے نوجوانوں نے پہاڑوں کا رخ کیا، ان میں سے ایک بچے کانام میران بلوچ تھا۔ میران بھی آزادی کے جنگ سے متاثر ہوکر اپنا گھر اور سب کچھ چھوڑ کر پہاڑوں کے سرزمین بلوچستان آتا ہے، اس وقت تک بہت سے لوگ یہ تک نہیں جانتے تھے کہ بی ایل اے کیا ہے اور اس نئی تحریک کا مقصد کیا ہے؟ ایسے وقت میں میران بلوچ بی ایل کے کیمپ ٹریننگ لینے بلوچستان پہنچتا ہے۔

وہ اس تحریک کے شروعات سے ہی اس کا حصہ بنے، میران بلوچستان میں پیدا نہیں ہوئے تھے، اس نے اپنے بچپن کے دن بلوچستان سے باہر گذارے اور تعلیم بھی بلوچستان سے باہر حاصل کیا۔ وہ صرف بلوچستان کے لیئے، واپس بلوچستان آیا۔ جب وہ کیمپ پہنچا، تو اس کی عمر 18 سال تھی۔ میران بلوچ نے موسمیاتی تبدیلیوں اور سخت حالات کا حوصلے سے سامنا کیا کچھ مہینے کے ٹریننگ میں ہی اس نے بندوق چلانے اور حالات کا سامنے کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔

ایک دن کیمپ کمانڈر نے میران کو کچھ پیسے دے کر کہا کہ شہر جاکر کیمپ کے لیئے راشن لے آو، اس وقت اتنا خطرہ نہیں تھا۔ اکثر ساتھی کام کے سلسلے میں مختلف شہروں کی طرف آتے جاتے تھے۔ جب اگلے دن میران شہر سے راشن لے کر واپس آئے تو ساتھیوں نے پوچھا کہ آپ نے راشن کم کیوں لیا، کیا پیسے ختم ہوگئے تھے؟ تو میران بلوچ نے کہا کہ “پیسے تو پورے تھے، لیکن جب میں سامان لے رہا تھا، تو اس وقت کچھ بچے دکان میں آئے، وہ بہت غریب تھے ان کے پیروں میں جوتے تک نہیں تھے۔ میں نے ان کے لیئے جوتے اور کپڑے خرید لیئے۔ جتنے پیسے بچ گئے میں آپ کے لیئے سامان خرید لایا ہوں۔” ایک ساتھی نے ہنس کر کمانڈر سے کہا کہ اسے آئیندہ شہر نہیں بھیجو، یہ تنظیم کے پیسے غریبوں میں بانٹ دے گا۔ کمانڈر نے مسکراتے ہوئے کہا “ہم سوچ رہے تھے کہ اسے کیمپ کے حساب کا کام میں بھی حوالے کردیں، لیکن لگتا ہے اب ہمیں اپنا فصیلہ بدلنا پڑے گا۔”

میران بلوچ نے کم مدت میں ہی اپنی محنت، سچائی اور بہادری سے تحریک میں اپنا مقام بنا لیا اور بہت جلد ہی اس کو گشتی حملوں کا کمانڈر چنا گیا۔ میران بلوچ دشمن پر وار کرکے کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا، اسے اپنے بندوق سے بہت پیار تھا۔ وہ ہمیشہ بندوق اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ کیمپ کے روز مرہ کے کاموں کے سلسلے میں بھی وہ بندوق اپنے پاس رکھا ہوتا تھا۔ ایک دن کی بات ہے کہ جب میران ساتھیوں سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ کر اپنی بندوق صاف کر رہا تھا اور اپنے بندوق کو غور سے دیکھ رہا تھا، ایک ساتھی دوسرے ساتھیوں سے مخاطب ہوا “میران کو بندوق سے بہت پیار ہے، ہر وقت اسے صاف کرتا ہے۔” تو دوسرے ساتھی نے کہا “کیوں نہیں ہو، یہ ہر مشکل وقت میں میران کا ساتھ دیتا ہے، کئی بار دشمن کے گھیرے میں آنے کے بعد اسی بندوق نے میران اور ساتھیوں کو بچایا۔” ایک اور ساتھی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ “جب سے میں آیا ہوں اور میران کی قیادت میں کئی بار جب ہم دشمن سے لڑے ہیں، تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ میران نے اسی بندوق سے تیس سے زائد قابض فوجی ہلاک کردیئے ہیں۔ اس کا نشانے بازی میں ماہر ہونے کےساتھ نزدیک اور اچانک حملوں کی وجہ سے دشمن کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔”

اس وقت شہید تروگل مری وہاں موجود تھے تو اس نے بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ “یہ سچ ہے، جب بھی ہم میران بلوچ کے ساتھ دشمن کا سامنا کرتے ہیں، تو دل چاہتا ہے کہ مورچے سے نہیں ہٹیں، بس لڑتے رہیں۔ میران بلوچ ساتھ میں ہو تو ایسا لگتا ہے کہ ہم محفوظ ہیں۔ اگر جنگ کے دوران ہم کھلے میدان میں بھی ہوتے ہیں تو ایک امید ہوتی ہے کہ میران کے ہوتے ہوئے ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔” بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شہید رتا مری نے کہا کہ “یہ بات بالکل سچ ہے، میران جنگی حالات کے ماہر ہیں۔ کس وقت، کس ہتھیار کی ضرورت ہوگی، یہ میران بلوچ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ ایک دن میران نے میرے ہاتھ سے بندوق لیکر مجھے راکٹ دے دیا دور بٹھا کر کہا جب ہم لڑ کر واپس ہوں تو آپ راکٹ فائر کرلینا، تاکہ دشمن کا خیال بٹ جائے اور ساتھی آرم سے نکل جائیں۔”

وہ ہر ہتھیار کا ماہر تھا، کچھ ساتھی اور کمانڈر گشت کے دوران تھک کر ایک جگہ رکتے ہیں۔ اس رات چاندنی تھی، کسی دوست کے موبائل پر گانا بج رہا تھا۔ گانے میں پیار اور یادوں کا ذکر ہوا تو ہر کوئی اپنے ماضی میں گم ہوگیا۔ ایک ساتھی نے میران سے پوچھا آپ نے کسی سے پیار کیا ہے تو سب ہنسنے لگے، میران نے بھی اسی انداز سے مسکراتے ہوے جواب دیا کہ “میں نے صرف بندوق سے پیار کیا ہے، اس لیئے کسی اور پیار کی ضرورت نہیں پڑی، اس بندوق سے میں نے شادی کی ہے اور یہ گولیاں ہی میرے بچے ہیں۔ یہ صرف ایک بندوق نہیں بلکہ وہ ساتھی ہے، جس نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا اور یہ گولیاں میرے بچے ہیں جو میرے حکم پر دشمن کی طرف بڑھتے ہیں۔ مجھ سے کوئی سوال بھی نہیں کرتے، نہ کبھی میرا دل دُکھاتے ہیں۔ ایک دن جب میں دشمن کے گھیرے میں آچکا تھا، تو میں سوچ رہا تھا کہ میں اکیلے کیا کر سکتا ہوں؟ تو میں نے غور سے اپنے بندوق کو دیکھا اور گولیاں حساب کیئے اور میں نے سوچا کہ میں اکیلے کہاں ہوں، یہ سینکڑوں گولیاں ایک ایک کرکے میرا ساتھ دیں گے۔ پورے دن میں نےایک ایک کرکے گولیاں دشمن پر برسائے۔ ان کو اپنے پاس آنے نہیں دیا۔ کئی گھنٹے دشمن کا سامنا کیا، رات ہوئی تو میں نکلنے میں کامیاب ہوا اور آج آپ کے سامنے ہوں۔ میرے سامنے ایک خوبصورت مقصد، آپ جیسے دوست ہر مشکل میں ساتھ دینے والا بندوق موجود ہے، مجھے اور کیا چاہیئے؟”

یہ کہہ کر اس نے بندوق کو چوم کر اپنے پاس رکھ لیا، سب ساتھی خاموش سے ہوگئے، تو کمانڈر نے کہا “جب تک ایسے نوجوان ہمارے تحریک میں ہیں، ہمیں پوری امید ہے کہ ہم کامیاب ہونگے۔ سچائی، محنت، ایمانداری، برداشت اورقربانی کے بارے میں ہم سے کوئی پوچھے یا سوال کرے تو ہم میران جیسے نوجوانوں کا نام فخر سے لیں گے۔ اس جنگ میں جو حوصلہ ہمیں چاہیئے تھا، وہ حوصلہ بھی آپ کے پاس ہے۔” کچھ وقت کے اندر ہی تنظیم کے اندر اختلافات پیدا ہوگئے، میران جیسے نوجوان کے خواب اور امید ٹوٹنے کا ڈر پیدا ہوگیا تھا، لیکن کسی اچھے امید کے لیئے سب دوست اپنا کام کرتے رہے، بعد میں بد قسمتی سے تنظیم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ میران بلوچ بدستور اپنے تنظیم کے لیئے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ دشمن کے خلاف ہر محاذ میں شامل رہے۔ کوئی اختلافات کے بارے میں پوچھتا، تو میران بلوچ ہمیشہ حوصلہ مند جواب دیتا اور کہتا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس طرح کے روکاٹ آتے ہیں لیکن جب بات لڑائی تک پہنچ گئی تو پھر کمانڈر نے میران سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیئے؟ میران نے دریافت کیا کہ “کیااب آپس کی لڑائی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے؟” کمانڈر نے کہا شاید نہیں، میران نے کہا “کل بات کریں گے۔” اگلی صبح میران اپنے ہاتھ میں کپڑوں کا چھوٹا سا بیگ لیئے کمانڈر کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ سب حیران ہوگئے یہ کیا ہورہا ہے؟ کمانڈر نے پوچھا “کیا ہوا بیگ لے کر کہاں جارہے ہو؟” میران نے کہا “وہاں جہاں سے آیا ہوں یعنی گھر۔” کمانڈر نے کہا “اچھا کل تمہاری باتوں سے لگ رہا تھا کہ تم ہمیں چھوڑ کر چلے جاو گے۔” “ہاں سچ کہا، میں فلحال تو جارہا ہوں۔” میران نے جواب دیا۔ تو کمانڈر نے کہا یعنی کچھ وقت کے لیئے میران نے جواب دیا ہاں۔ کمانڈر طنزیہ لہجے سے بولا “آج بھاگ رہے ہو، لیکن کل ہمارے جیت کے بعد واپس آوگے۔” میران پہلی بار اپنے کمانڈر کے سوالوں کے اس طرح تیزی سے جواب دے رہا تھا میران نے زور دار لہجے میں بولا “جیت؟ کس جیت کی بات کررہے ہو آپ؟ اور کس سے جیت کر جشن مناو گے؟ اس تنظیم کے آپ کمانڈر ہیں، تو دوسری تنظیم میں آپ ہی کے بھانجے سپاہی کے طور پر کام کرتےہیں۔ آپ انہیں مار کر جیت جاؤگے یا وہ اپنے ما ما کو مارکر جیت جائیں گے؟ کل تمہارا سامنا جنگ کےمیدان میں ان سے ہوجائے، تو تماری بہن اپنے بچوں کے سلامتی کی دعا کرےیا اپنے بھائی کے سلامتی کیلئے؟ اور بھی جتنے ساتھی یہاں موجود ہیں، ان میں سے کسی کا بھائی، کسی کا دوست، کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، دوسری تنظیم میں ہے۔ اس لڑائی میں کسی کی جیت نہیں ہے، ہم سب کی ہارہے۔”

میران کی باتیں سننے کے بعد کمانڈر نے کہا “میں جانتا ہوں، لیکن ہم نے قسم کھائی ہے تنظیم جوبھی فیصلہ کرے، ہمیں وہ کام کرنا ہے۔ کیا آپ بھول گئے؟” میران نے فوری بات کاٹتے ہوئے جواب دیا “میں بھول نہیں گیا لیکن اس سے پہلے میں نے اپنے ماں باپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں کسی اپنے پر بندوق نہیں اٹھاؤنگا، میں نے صرف بلوچستان کی آزادی کا وعدہ کیا تھا۔” کمانڈر اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا ” اسکا مطلب آپ ہمیں غلط ثابت کرنا چاہتے ہو، کہ ہم غلط کررہے ہیں؟” میران بولا “نہیں میں کسی کا فیصلہ نہیں کررہا ہوں کہ کون غلط ہے، میں کہہ رہا ہوں، سب غلط سمت میں جارہےہیں اور میں اس طرف نہیں جاسکتا۔”

کمانڈر اپنے بات پر ڈٹتے ہوئے بولا “آپ سچائی سے بھاگ رہے ہو۔” میران بلوچ تیزی سے جواب دیتے ہوئے بولا “جس سچائی کی لڑائی کے لیئے میں آپ کے ساتھ ہوں، اسی سچائی کےلیئے میں 15 سالوں سے تحریک کا حصہ رہا۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر سچائی کے ساتھ دینے کے لیئے اپنی ہر خوشی قربان کردی، 3 سال ہوگئے میں اپنے گھر تک نہیں گیا، کس لیئے؟ کس نے مجھے روکا؟ اسی سچائی کی جنگ وجہ سے آپ لوگ اپنی کمزوریوں کو سچائی کے نام پر چپھارہے ہیں اور لوگوں سے کہے رہے ہو کہ سچائی کی وجہ سے اکیلے ہوگئے ہیں۔ ہم مجبور ہوکر جارہے ہیں، ہم سچائی سے بھاگنے والے نہیں تھے۔ مجھے دکھ ہے کہ آج میں اپنا بندوق نیچے رکھ رہا ہوں لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے۔ جس کمانڈر نے 15 سال پہلے مجھے یہ بندوق دیا، میں اسی کو واپس کررہا ہوں، آپ سے میرا رشتہ کمانڈر اور سپاہی کا نہیں آپ میں ہمشہ میں نے اپنے والد کو دیکھا۔ یاد ہے کئی سال پہلے میرے سر میں درد ہوا؟ آپ نے کئی بار آکر میرا حال پوچھا، جب کوئی اچھی چیز شہر سے آپ کے لیئے آتا تو آپ بہانے سے کہتے یہ مجھے پسند نہیں ہے، اس کا رنگ خراب ہے وغیرہ، آپ اس میں ہزار خامیاں نکال کر مجھے دیتے لیکن سچ یہ ہے کہ آپ میرے لیئے یہ سب کرتے تھے حالانکہ اس چیز میں کوئی خرابی نہیں ہوتی تھی۔ میں آج اپنا بندوق کسی دشمن کے حوالے نہیں کررہا ہوں، بلکہ کسی اپنے کے قدموں رکھ رہا ہوں۔” یہ سب سن کرتمام ساتھیوں کے آنکھوں میں آنسو آگئے، میران کی آنکھوں سے آنسو کے قطروں کی لڑی ایک ایک کرکے بندوق پر گر رہی تھی۔ کئی محاذوں پر اپنے ساتھیوں کے شہید ہونے پر سب کو دلاسہ دینے والا میران کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک پارہے تھے۔ وہ سب ساتھیوں کو گلے سے لگایا اور کمانڈر سے کہا اپنے اس نادان بچے کو معاف کردو، جو آپ سب کادل دکھاکر جارہاہے۔”

“15 سالوں کی محنت کامجھے صرف یہ انعام دینا کہ اگر مجھے کچھ ہوگیا یا دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا یا میرے مرنے کی خبر آئی تو میرے لیئے اتنا بہت ہے کہ آپ مجھے بلوچستان کا ایک سچا سپاہی اور عاشق سمجھیں۔” وہ سب سے مخاطب ہونے کے بعد اپنے جیب سےکچھ پیسے، قینچی، کنگی، سوئی اور دھاگہ جو گوریلا کے لیئے ضروری تھے، وہ سب بندوق کے پاس رکھ دیئے اور کہا یہ تنظیم کے ہیں، اس میں میرا ذاتی کچھ بھی نہیں ہے۔ کمانڈر نے کہا کرائے کے لیئے کچھ پیسے تو لےلو میران نے انکار کردیا اور کہا میں کسی سے قرض لےکرگھر جاؤنگا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

کچھ دنوں کے بعد خبر آئی کہ میران بلوچ کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور فوج نے لاپتہ کردیا ہے اور کئی مہینے بعد اس کی تشدد زدہ لاش ملی۔ یہ خبر کمانڈر تک پہنچی تو اسکے آنسو آنکھوں سے بہنے لگے اور کہا آپ جیسا بہادر پھر ہمارے درمیان نہیں ہوگا۔ بلوچستان کو آپ پر فخرہے، ہوسکے تو اپنے اس نادان باپ کو معاف کرنا۔ پھر اپنے ساتھیوں سے کہا میران کا بندوق لے آؤ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔

آج بھی ہر تنظیم اپنی جگہ صحیح، اگر ہر لیڈر اپنی جگہ صحیح ہے، تو میران بلوچ بھی غلط نہیں تھا، وہ بھی اپنی جگہ صحیح تھا کیونکہ اس کی سچائی کی گواہی اس کی قربانی نے دی، اس کی سچائی نے دی، بلوچستان کی مٹی نےدی، ساتھیوں کی آنسوؤں نے دی، 15 سالوں کی محنت نے دی، ان بچوں نے دی جن کے پیروں میں جوتے تک نہیں تھے لیکن افسوس آپ صرف خود کو سچا کہہ رہے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے آپ کے صداقت کے حق میں گواہی تک نہیں دی ہے۔

آج بھی دو تنظیموں نے ایک دوسرے کے خلاف بیان دیا، ہمارا صرف اتنا عرض ہے، ان تنظیموں کو میران بلوچ جیسے نوجوانوں نے اپنے خواب، اپنی خوشی، اپنی زندگی قربان کرکے اس مقام تک پہنچایا۔ آپ کوئی ایسا قدم نہ آٹھائیں کہ ان کی قربانیاں ضائع ہوجائیں کیونکہ ہماری امید ہی آپ سے ہے۔