پاکستانی خفیہ اداروں کے بعد ازالیکشن عزائم – برزکوہی

332

پاکستانی خفیہ اداروں کے بعد ازالیکشن عزائم

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

بندوبستِ پاکستان کے آنے والے بلوچستان میں نام نہاد انتخابات سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے وجود کا قیام، نام نہاد انتخابات کے بعد بلوچستان کی اصل صورتحال کیسی ہوگی؟ پاکستان کی بلوچ دشمن ریاستی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی نوعیت کیا ہوگی؟ “باپ” کے وجود و سرگرمیوں سے یہ بخوبی انداذہ لگایا جاسکتا ہے۔

عمومی طور پر ریاستیں افواج تشکیل دیتے ہیں، لیکن یہاں معمالہ الٹا ہے کیونکہ یہاں فوج نے ایک ریاست بنایا اور چلا رہا ہے۔ ماضی میں سرعام، علی الاعلان اور بلاجھجک مارشل لاء کے نام سے پاکستانی فوج ریاست چلارہا تھا۔ اب موجودہ موضوعی اور معروضی حالات کے پیش نظر صورتحال میں ایسا کرنا ممکن نہیں کہ پاکستان فوض کھلے عام مارشل لاء کا نفاذ کرکے ملک کو چلائے۔

خاص طور پر بلوچستان کے صورتحال سے نمٹنے کیلئے یعنی بلوچ قوم کو دبا کر بلوچ انسرجنسی کو کاونٹر کرنے کیلئے اس مرتبہ براہِ راست پاکستانی فوج بلوچستان میں اپنے حاضر سروس دیرینہ اہکاروں کو سویلن روپ میں باپ کی شکل میں یکجا کرکے برسراقتدار لانا چاہتی ہے تاکہ ہر بلوچ دشمن اس سازشی پالیسی اور نسل کشی کے عمل کو من وعن قبول کرکے اس کو آگے بڑھا دے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کار خیر کو تو ڈاکٹر مالک، حاصل خان اور اختر مینگل بھی کرسکتے تھے، پھر باپ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

شاید اس بار الیکشن کے بعد سابقہ بلوچ نسل کشی، جبر و بربریت کے شدت میں کئی گنا زیادہ شدت لانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں جبر، تشدد اور بلوچ نسل کشی کا باقاعدہ فیصلہ ہوچکا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ڈاکٹر مالک و حاصل خان اور اختر مینگل سمیت بی این پی عوامی، مذہبی و پشتون جماعتیں وغیرہ بلوچستان و بلوچ قوم اور بلوچ قوم کے درد کا احساس اور قوم دوستی کو دل میں لیکر ریاست کے کسی انتہائی بے رحم پالیسی کو من و عن قبول نہ کرتے ہوئے آگے بڑھانے سے گریزاں ہونگے۔

بلکہ ایسا اس لیئے کیا گیا کہ باپ مکمل پاکستانی فوج کی آرڈر اور ہدایت کا پابند ہوکر ok sirجی سر کے پالیسی تحت عمل درآمد کریگی کیونکہ اصل میں باپ خود پاکستانی آرمی کی ایک کور ہے، جس کو سویلن شکل میں سیاسی پارٹی کا برائے نام ایک عوامی پارٹی کا نام دیا گیا ہے۔

دوسری حقیقت جس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کے وجود سے لیکر آج تک پاکستان کے ہر کونے سمیت خاص طور پر بلوچستان میں وزیراعلیٰ شپ سے لیکر یونین کونسل کے ممبر تک سب کو بلاواسطہ یا بالواسطہ پاکستانی فوج ہی منتخب کرواتی ہے، لیکن اس دفعہ پاکستانی فوج اپنی آخری حدتک انتہاء کی جارحیت کو دوام بخشنے اور مدد حاصل کرنے کی خاطر اپنے ہی فوج کے سینئر و جونیئر اہلکاروں اور ایجنٹوں کو عوامی نمائندہ منتخب کروانا چاہتا ہے۔

ایسا بھی نہیں مالک بلوچ اخترمینگل وغیرہ اپنی اپنی وفاداریاں پاکستان کو پیش نہیں کررہے ہیں، وہ تو حتی الوسع کوشش کررہے ہیں، جس کی واضح مثال قدوس بزنجو کو اختر مینگل کی طرف سے وزارتِ اعلیٰ کیلئے حمایت قابلِ ذکر ہے۔ اختر مینگل سب کچھ جانتے ہوئے کہ قدوس بزنجو کون ہیں؟ کہاں سے ہے اور ڈاکٹر مالک کا گذشتہ دنوں رونے دھونے والے اخباری بیان کہ ہم نے مزاحمت کاروں سے جنگ لڑی قربانی دی پھر بھی اس دفعہ ہمیں نظر انداز کررہے ہو۔

مشکل ہے اس دفعہ موقع پاکستان وفادار پارٹیوں کو مل جائے، اس دفعہ پاکستانی فوج اپنے حاضر سروس اہلکاروں اور خاص ایجنٹوں کو عوامی نمائندوں کی شکل میں منتخب تو کرواتا ہے مگر کیسے؟ سلیکشن کے نام پر الیکشن، اس دفعہ پاکستانی فوج ہر حالت میں جعلی و اصلی ووٹوں کی تعداد میں ضرور کئی گناہ زیادہ اضافہ کردیگا۔ میرے خیال میں اہم سوال یہ ہے کیا پاکستانی مقتدرہ قوتوں کیلئے یہ عمل ممکن نہیں کہ ووٹوں کی تعداد کو کس طرح اور کیسے ہزاروں کی تعداد میں بڑھا دے؟ سوفیصد ممکن ہے، تو پھر پاکستانی مقتدرہ قوتوں کے ہاتھوں خود ووٹوں کی تعداد کو بڑھانے اور زیادہ ظاھر کرنے سے بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک پر کیا منفی اثرات پڑ سکتے ہیں؟

عام سادہ سی رائے یہ ہے کہ پاکستان اپنے نام نہاد انتخابات اور بلوچستان میں ووٹوں کی تعداد کو بڑھانے کی خاطر دنیا کو گمراہ اور بے وقوف بنا سکتا ہے کہ بلوچ قوم پاکستانی انتخاب میں بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ کیا بلوچستان پر نظر رکھنے والی دنیا کی آنکھیں اس حد تک اندھے اور کمزور ہیں کہ انہیں اتنے آسانی کے ساتھ وہ بے وقوف بنا سکتے ہیں؟

میرے خیال میں پاکستانی الیکشن کا بلوچستان میں ٹرن آوٹ کیا ہوگا یہ بلوچوں کا درد سر نہیں ہونا چاہیئے۔ بلوچ قومی تحریک کی تمام تر توجہ اس وقت اپنی قومی اور نظریاتی قوت کی تشکیل کے ساتھ خاص کر سی پیک گوادر کو مکمل ناکام کرنا ہونا چاہیئے۔ پاکستانی الیکشن کا ہو نا یا نہ ہونا کون منتخب ہوگا کون نہیں ہوگا یہ دنیا کا مسئلہ ہی نہیں۔

دنیا کی توجہ اس وقت حاصل ہوگی، دنیا بلوچستان کے مسئلے پر سوچنے پر اس وقت زیادہ مجبور ہوکر ضرور عملاً کوئی بھی قدم اٹھائیگا جب بلوچستان میں گوادر سی پیک کے ساتھ ساتھ، بلوچستان میں ہر پاکستانی چینی اور دیگر تمام بیرونی سرمایہ کاری کے منصوبے ناکام ہونگے