نواب خیر بخش مری ایک عہد ساز شخصیت – لطیف بلوچ

1024

نواب خیر بخش مری ایک عہد ساز شخصیت

تحریر :لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو دنیا کے سیاسی افق پر ایسے اشخاص نے بھی جنم لی ہے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی کو اپنے قوم کی آزادی، خوشحالی کے لئے وقف کردی ہے۔ زندگی بھر وہ اپنے سیاسی اصولوں اور نظریات پر سختی سے عمل کرتے رہے اور دنیا کی وجود سے لیکر آج تک دنیا میں ایسے ایسے عظیم لیڈر گذرے ہیں جنہوں نے لوگوں کو شعور دیا، اُنہیں آزادی اور غلامی کے مفہوم سمجھائے، جدوجہد کا راستہ دکھایا، ظالم و جبر، استحصالی و استبدادی استعماری اور سامراجی قوتوں کے قبضہ گیریت و توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف جدوجہد کرکے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔

دنیا کی تاریخ عظیم انقلابی لیڈروں اور فلسفیوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے، ہمیں تاریخ کے اوراق پر چی گویرا، فیڈل کاسترو، ماؤزے تنگ، ہوچی منہ، کم ال سنگ، لینن، نیلسن منڈیلا، کارل مارکس، مارٹن لوتھر کنگ جونئیر، بھگت سنگھ، نکروما، سوئیکارنو، سقراط، رینے ڈیکارٹ، جارج برکلے، والٹیئر، جارج ھیگل، عمانویل کانٹ، سارتر، فرائیڈ، گوئٹے، فرانز فینن، ایڈورڈ سعید، سمیت دیگر انقلابی لیڈروں اور فلسفیوں کی طویل، صبر آزما، تکالیف، مشکلات اور اذیتوں سے مزین زندگی اور جدوجہد کی داستانیں ملتی ہیں۔ جنہوں نے سامراجی قبضے، نوآبادیاتی غلامی اور نسل پرستی کے خلاف جنگیں لڑیں اور طویل جدوجہد کرکے اپنے قوموں کو سامراجی قبضے سے آزاد کیا، اُن عظیم رہنماؤں میں سے ایک نواب مری خیر بخش مری تھے۔ وہ بلوچ مزاحمتی جدوجہد کے سرخیل تھے، اُنہوں نے بلوچ قوم میں مزاحمتی سوچ کو پروان چڑھانے اور قبضہ گیر پاکستان کے خلاف مسلح مزاحمت کو منظم کرنے کے لیئے بے پناہ اذیتیں جھیلیں۔

ون یونٹ کے خاتمے کے بعد 1970 کے انتخابات میں حصہ لیا اور رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے، اُنہوں نے 73 کے آئین پر دستخط سے انکار کیا، جب ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کے منتخب حکومت کو ختم کیا، سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، اور شیرو مری سمیت دیگر کو حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار کیا، نیپ حکومت کے برطرفی اور قیادت کے گرفتاری کے بعد ساراوان، جھالاوان اور کوہستان مری میں مسلح کاروائیوں کا آغاز کیا گیا۔ پاکستانی فوج نے کوہستان مری اور جھالاوان سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ظلم و بربریت کا آغاز کیا۔ ہزاروں بلوچوں کو شہید اور گرفتار کیا گیا شاہ ایران کی مدد و کمک سے جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سول آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا اور بلوچ نوجوانوں کو کئی فٹ بلندی سے ہیلی کاپٹروں سے نیچے پھینکا گیا، بلوچ قتل عام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا۔

1978 میں جیل سے رہائی کے بعد نواب خیر بخش پہلے برطانیہ پھر وہاں سے افغانستان چلے گئے، بھٹو کے دور آمریت کے دوران ہزاروں مری بلوچ ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے تھے، افغانستان میں اُنہوں نے اسٹڈی سرکلز اور سیاسی و جنگی تربیت کا سلسلہ جاری رکھا، جب مجاہدین افغانستان میں داخل ہوگئے، تو نواب مری واپس بلوچستان آگئے۔

درسگاہ آزادی نواب خیر بخش مری کی شخصیت اور زندگی کا احاطہ چند سطور میں ممکن نہیں، نواب خیر بخش مری نے پوری زندگی بلوچستان کی آزادی اور غلامی کے خلاف درس دیتے رہے۔ اُنہوں نے اپنے نظریات اور اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، آخری دم تک اپنے نظریات پر سختی سے ڈٹے رہے، وہ انتہائی کھٹن حالات کا مستقل مزاجی سے مقابلہ کرتا رہا جیل و بند کی صعوبتیں، اذیت، جلاوطنی، بیٹے کی شہادت جیسی تکلیفوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور کھبی نہیں ٹوٹا نہ جھکا بلکہ دشمن کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑا رہا۔ وہ سمجھتا تھا کہ بلوچ قوم کیساتھ آزادی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے، اس لیئے وہ آزادی کے پُرخار راہ پر گامزن رہے اور بلوچ قوم کو بلوچستان کی آزادی کے لیئے لڑنے کی درس دیتا رہا اور غلامی کے خلاف مزاحمت کی سوچ اُبھارتے رہے اور قومی بیداری کے لئے حق توار کے نام سے تربیتی سرکلز اور عالمی سیاست کے اُتار چڑھاؤ، تبدیلیوں اور قومی تحریکوں کے بارے میں سیاسی و فکری ذہن سازی سلسلہ جاری رکھا۔

1999 میں جب مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور مارشل لا کا نافذ کیا تو بلوچستان میں ایک بار پھر بغاوت کے بادل منڈلانے لگے، نواب مری کو جسٹس نواز مری کے قتل میں گرفتار کیا گیا نواب مری کے گرفتاری کے بعد ایک بار پھر مسلح مزاحمت نے سر اُٹھانا شروع کیا، بلوچ نوجوانوں نے پاکستانی قبضہ اور قومی غلامی کے خلاف مسلح کاروائیوں کا آغاز کیا اور بلوچستان بھر میں ریاست کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کچھ عرصہ بعد نواب مری جیل سے رہا ہوئے اور کراچی منتقل ہوگئے اور بلوچ قوم اور نوجوانوں کے رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ نواب مری اپنی ذمہ داریوں سے کھبی غافل نہیں ہوئے اور زندگی میں کھبی ایک سیکنڈ کے لئے بھی مایوسی اور نااُمیدی کا شکار نہیں ہوئے وہ بلوچ قومی تحریک کے بارے میں میں ہمشہ پرُاُمید دکھائی دیتے تھے اُنہوں نے مایوسی کو کھبی اپنے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیا۔

10 جون 2014 کو نواب مری کراچی کے ایک نجی اسپتال میں وفات پا گئے، یوں تاریخ، فلسفہ اور جدوجہد کا ایک عظیم باب بند ہوگیا، بلوچ سیاست اور قوم پرستی کا ایک عہد تمام ہوا۔

بی بی سی کے تجزیہ نگار وسعت اللہ خان نواب خیربخش مری کی شخصیت کا احاطہ ان الفاظ میں کرتے ہیں”اگر بلوچوں کی تاریخ، مزاحمت، قدامت پسندی یا قوم پرستی کو ایک ساتھ گوندا جائے تو اس مواد سے جو بھی شخصیت ابھرے گی وہ نواب خیر بخش مری کے سواء شاید کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ ذاتی المناکیاں سیاسی و قبائلی طوفانوں کے تھپیڑے یہ سب کچھ بھی نواب خیر بخش مری کا سرخ و سفید رنگ مانند نہیں کرسکے، نواب مری کا تعلق سوچنے سمجھنے اور اوڑھنے والی اس نسل سے ہے جنہوں نے دنیا کی ڈگر پر چلنے کی بجائے دنیا کو اپنی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی ہے ایسے مس فٹ(misfit )لوگوں میں سے کچھ کامیاب ہوتے ہیں تو ہوچی منہ،منڈیلا، کاسترو بن جاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں نواب خیر بخش مری بن جاتے ہیں۔ لیکن اس بات کا فیصلہ آئندہ وقت ہی کرے گی کہ بلوچوں جیسی پیچیدہ سماج کو ایک راہ دکھانے اور اسی راہ پر کٹ مرنے پر تیار کرنے والی خیر بخش مری کو تاریخ کامیاب رہنما مانتی ہے یا اس کے برعکس کو ئی اور نام دیتی ہے۔ بہرحال نواب مری نے اپنی طویل جدوجہد میں بلوچوں کو منزل کی راہ دکھائی اور انہیں تحریک دی، یہ وہ عظیم کارنامہ ہے کہ اسے ایک کامیاب رہنماء ہی سرانجام دے سکتا ہے۔

آنے والی نسلوں، سیاسی کارکنوں، تنظیموں، جہد کاروں، دانشوروں، قلمکاروں اور قوم پرستی کے جدید نظریے پر یقین رکھنے والوں کے لئے اُنکی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، جس سے منزل کا تعین اور آنے والے نسلوں کی آزادی اور خوشحالی کے لئے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔