میں تنہا نہیں جو پھانسی چڑھا – عبدالواجد بلوچ

443

میں تنہا نہیں جو پھانسی چڑھا

تحریر :عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مادرِ وطن بلوچستان عظیم ہے، جس نے عظیم فرزندوں کو جنم دیا.یہ جہد آجوئی کا تسلسل ہی ہے، جو ہر لمحہ مادرِ وطن کے عظمت کی حفاظت کے لیئے فرزندانِ وطن خون کے دریا میں غوطہ زن ہیں. یقیناً 11جون 1981 کو وہ لمحہ اس شخصیت کے لئے ذرہ برابر بھی گراں نہ تھا جو اپنے معصوم بیٹی بانڑی کو اپنا آخری وصیت نامہ اپنے مبارک ہاتھوں سے پھانسی کے پھندے کو گلے لگانے کے چند گھنٹے قبل تحریر کررہا تھا، اس وصیت نامے کا ہر لفظ از خود جہد آجوئی کے لئے مستند راہ کی حیثیت رکھتی ہیں.بلوچ سرزمین کو غیروں کی تسلط سے چھٹکارا دلانے کے لئے اس عظیم مقصد تک پہنچنا یقیناَ نایاب ہی ہے، لیکن یہ وہی تسلسل ہے جو ہنوز جاری ہے. جہد آجوئی کو قوت فراہم کرنے کا سہرا تو بی ایس او کے سر پر ہے کیونکہ یہ وہی ادارہ ہے جہاں نایاب شخصیات نے اپنا حصہ اس وطن کی آجوئی کے لیئے دیا تھا اور بہت سے ایسے ہیں جو عظیم راہوں کے مسافر بن کر امر ہوگئے۔

شہید حمید بلوچ نے جب اپنے تین سالہ بیٹی بانڑی کو خط لکھا، تو اس کیفیت کا اندازہ اس کائنات کا کوئی شے نہیں لگا سکتا شہید کے تاریخی الفاظ ” آزادی جیسی انمول دولت بغیر خون کی قربانی سے نہیں مل سکتی.کم از کم میں نے کسی جگہ تاریخ میں یہ نہیں پڑھاکہ قوموں کو آزادی بغیر قربانی کے ملا ہو۔اور آزادی کی راہ دشوار ضرور ہے مگر منزل شائداتنا نزدیک ہے میں تواس کا خیال کر کے انتہاء کی مسرت محسوس کر تا ہوں،گوکہ شائد ہماری آزادی شائد میری بیٹی بانڑی جو اس وقت تین سال کی ہے اسکے زمانے میں بھی ہمیں نصیب نہ ہو.لیکن اس کے بچے یا میرے بھائی بیبرگ کے بچے ضرور اس منزل تک پہنچ جائیں گے۔اس وقت میری روح کو تسکیں پہنچ جائے گا۔یقیناًمیری قربانی ان عظیم قربانیوں سے کم ہوگی جو بلوچ بچے اور بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے دے مگر کم ازکم میں نے اپنی جان دے کر صرف اپنے ساتھیوں تک یہ بات پہنچادی ہے”

تو پہ سرانی گڈگ ءَزندءِحیالانءَ کُشے

پہ سندگ ءَ داشت کنے پلءَ چہ بوتالانیءَ

شہید حمید بلوچ کی اگائی ہوئی وہ درخت اکیسویں صدی کے اس دور میں تناور ہوچکا ہے اور ان کی صدا پورے خطے میں گونج چکی ہے. بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑاور حسین میدان اس بلوچ کے منتظر ہیں، جسے وہ اپنا گھر اپنا قلعہ کہتا ہے، شہید حمید کے ان الفاظ کا لاج ان بے شمار شہداء نے رکھا ہے، جنہوں نے اپنا جان اس وطن کی خاطر نچھاور کیا. شہید حمید نا صرف بلوچ راج کا شہید ہے بلکہ وہ اس کی شہادت دنیا کے تمام مظلوم و محکوم قوموں کے لئے مشعلِ راہ ہے. شہید حمید نے اس فکر کی آبیاری کہ دنیا کے تمام مظلوم قوموں کے لئے جدوجہد کیا جائے. انہوں نے مظلوم و محکوم ظفاریوں کے لئے بلوچ نوجوانوں کو استعمال ہونے سے روکا، اسی پاداش میں وہ پسِ زنداں تو ہوئے لیکن ان کی شہادت اور انہیں پھانسی کی سزا دینا یقیناً ریاست کی طرف سے بلوچ کے لیئے انتہائی نفرت کا اظہار تھا کیونکہ ریاست کو یہ بخوبی علم تھا کہ شہید حمید جیسے نڈر بہادر بین الاقوامی پائے کے لیڈر کا آگے آنا اور ان کے لئے دنیا کے تمام مظلوم قومیت کا درد محسوس کرنے کا رویہ مستقبل میں مزید درد سر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی ڈر و خوف کو مدنظر رکھ کر دشمن ریاست نے انہیں پھانسی کی سزا دی، انہیں یقین تھا کہ شہید حمید جھک جائیں گے، رحم کی اپیل کریں گے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا پیراں سالہ شہید عمر مختار شہید بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی تعلیمات کی رہنمائی سے نوجوانی کی دہلیز پر پہنچنے والا رہبر حمید بھی اس پھندے کو ہنس کر گلے میں ڈالے گا.

ان کے وہ الفاظ تاریخ کے اوراق پر آج بھی تابندہ ہیں جب وہ اپنا وصیت نامہ لکھ رہے تھے “مجھے اس بات کا کم یقین ہے کہ میرا یہ وصیت نامہ میرے عظیم بلوچستان کے عظیم فرزندوں تک پہنچ بھی جائے گا یا نہیں، اور جس وقت میں یہ لکھ رہا ہوں میرے ارد گرد مسلح افراد ہیں۔ جو میرے ایکشن کو بغور دیکھ رہے ہیں ۔ اس وقت مجھے مزید آٹھ گھنٹہ زندہ رہنے کی مہلت ہے اور آٹھ گھنٹہ بعد میں تختہ دار پر ہونگالیکن مجھے اس بات پر ذرا بھی نہ پشیمانی ہے اور نہ ہی اس بات کا خیال کہ مجھے مرنے سے زیادہ زندہ رہنا چاہیے تھاکیونکہ اگر زندگی بلا مقصد ہو اور غلامی میں بسر کی جائے اور وہ زندگی لعنت ہے.بلوچستان کے لیے صرف میں نے قربانی نہیں دی ہے۔ سینکڑوں بلوچ وطن کی راہ میں اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ خود میرے خاندان میں میں دوسرا افراد ہوں جو پھانسی کے اس زنجیر کو چھو کر گلے میں ڈالوں گا۔اور اپنا خون اس عظیم مقصد کے لیئے دوں گا، جسکی نکیل میرا ایمان ہے بلوچ بچے کریں گے۔ میرے خاندان میں میرے دادا کو انگریزوں نے پھانسی دی تھی یہ واقعہ 1902ء میں ہوا۔

میرا ہمیشہ میرے دوستوں سے یہ کہنا رہا ہے کہ آزادی جیسی انمول دولت بغیر خون کی قربانی سے نہیں مل سکتی ۔ کم از کم میں نے کسی جگہ تاریخ میں یہ نہیں پڑھاکہ قوموں کو آزادی بغیر قربانی کے ملا ہو۔اور آزادی کی راہ دشوار ضرور ہے مگر منزل کا حصول آسان ہے.”شہید حمید بلوچ کی تعلیمات اور دنیا کے مظلوم و محکوم قومیتوں کے لئے ان کا درد ہمیشہ ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ جدوجہد کرنا ہے تو اکھٹا ہونا ہوگا یکجہتی و یک مشت ہوکر ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں جب بکھر جائیں گے تو کچھ نہیں بچے گا کیونکہ اس امر کا اعادہ انہوں نے اپنے وصیت میں اس طرح کی تھی “میں اپنے طالبعلم ساتھیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم آزادی کی نعمت سے بار آور ہونا چاہتے ہو تو قربانی دینے سے پس و پیش نہ کرو لیکن قربانی کے ساتھ آپس میں اتحاد و یکجہتی اور متحدہ عمل نہایت ضروری ہے۔ آپس کے اختلافات سے صرف دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ یاد رکھو دشمن بڑامکار ہے۔ لہٰذااگر بی ایس او واقعی بلوچ قوم کو اس کے منزل تک پہنچنے میں رہنمائی کرے گی تو ان کے لیے آپ میں اتحاد ضروری ہے اتحاد کے بغیر ہم منتشر ہونگے اور ہماری منزل مزیددور ہوگی۔بلوچستان کی سر زمین کو سبزہ زار بنانے کیلئے خون کے آبیاری کی ضرورت ہے اور خون ہی سے “سرمگیں بولان” سر سبز ہوتا ہے.”شہید حمید بلوچ کے یہ الفاظ تمام بلوچ جہدکاروں پر ادھار ہیں جب تک وہ یکجہتی و اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتے.

کرچلے ہم فدا جان و تن ساتھیوں
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں