مولہ زہری کے دامن میں نورالحق – جلال بلوچ

225

مولہ زہری کے دامن میں نورالحق

تحریر: جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

نیند یقیناً جسمانی و ذہنی سکون کیلئے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ مگر جب انسان غلامی کے پھندے سے لپٹا ہوا ہو، تو وہ نیند و آرام اذیت جیسی ہوتی ہے۔ نیند نہ آنے کی وجہ میرے حقیر سے وجود پر ایک کیفیت کا طاری ہونا ہے۔ وہ کیفیت ایک مخلص و ایماندار ساتھی کا ہم سے جسمانی لحاظ سے جدا ہونا ہے۔ ایک ایسے ساتھی کی کمی آج شدت سے محسوس ہورہا ہے، جو ذاتی تعلق ہو یا سیاسی پلیٹ فارم سے منسلک ہونا ہو یا کہ جدوجہد آزادی کی تحریک میں ایک ابھرتا ہوا گوریلہ کمانڈر ہو کسی چیز کی کمی اس شخصیت کے اندر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ کہتے ہیں جس چیز کو کوئی دل و جان سے چاہے اسے پوری کائنات پورا کرنے سے نہیں روک سکتا۔ قلم کے استعمال سے لیکر شعوری زانتکاری سے لیس اور پھر اسی شعور کے توسط، بندوق سے بے پناہ محبت کرنا شاید ہی کوئی ایسے پختہ سوچ و اپروچ کا مالک ہو۔ مگر آپ کی زندگی مجھ جیسے ہزاروں جہدکاروں کیلئے ایک درد کے ساتھ روشن سبق کی طرح ہے کیونکہ ہم جیسے خود کو انقلابی کامریڈ تصور کرنے والے ابھی تک انقلاب کے پرخطر الفاظ سے واقفیت نہیں رکھتے۔

ایک بات طے ہے آپ کی شہادت نے قلمی انقلاب سے لیکر دشمن پر بندوق سے وار کا جو پیغام ہمارے لیئے لایا ہے، وہ انتہائی پر حوصلہ تھا۔ جس کا ثبوت آپ کے شہادت کے بعد آپ اور سنگت دلجان پر لکھے گئے بیشمار تحریں ہیں۔ آپ جیسے عظیم ہستیوں پر لکھنا مجھ جیسوں کی کوئی اوقات نہیں لیکن معٰذرت کے ساتھ اپنے دل و دماغ کی تسلی و سکون کیلئے کچھ لکھنے کی گستاخی کرنے کا جرم کررہا ہوں۔ ویسے آپ کے شہادت کے بعد آپ کے اوپر بےشمار اور بہترین تحریریں لکھی گئی جن کی وجہ سے میرے لرزتے ہاتھوں میں یہ قلم لکھنے میں کمزور پڑ سکتا ہے۔ مگر ایک فکری ساتھی کے کردارپر لکھنا اس قدر مشکل ہوتا ہے، جس میں ایک گناہ شہید کے کردار کے ساتھ ناانصافی ہے۔

میں ایک ایسے ساتھی کے بارے میں کچھ لکھنے جارہا ہوں، جو صرف ایک علاقے کی حد تک اپنی سوچ کو محدود نہیں رکھے ہوئے تھا اور نا ہی اپنی ذات تک وہ محدود تھا۔ شہید نورلحق گو کہ خاران کے ایک چھوٹے سے علاقے تعلق رکھتے تھے، مگر انکی سوچ و اپروچ انتہائی بلند و بالا تھے۔

1989 شہید نور الحق خاران کے ایک چھوٹے سے گاوں میں پیدا ہوئے۔ شہید کے والد محترم نوکری کے سلسلے میں خاران ٹاون شفٹ ہوئے۔ شہید نور الحق نے پرائمری تعلم واپڈا اسکول خاران سے حاصل کیا تھا، انہوں نے پانچویں جماعت سے اپنے سیاست کا آغاز کیا تھا۔ انکے سیاست کا آغاز کچھ اس طرح سے ہوا کہ پانچویں جماعت کے دوران استاد کے نا پڑھانے کی وجہ سے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر بورڈ امتحانات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

اس بائیکاٹ کو ختم کرنے اور مذاکرات کی سرتوڑ کوشش ایجوکیشن آفیسر کیلئے پہنچے تھے، تو ان کے درمیان مذاکرات کے شرط پورے ہونے پر انہیں پڑھنے کے لئے کچھ دنوں کا وقت دیا گیا۔ یہ وہی بچپن کی مزاحمت کا نتیجہ تھا کہ آپ آخر سانس تک اپنے اصولی مقصد پر ڈٹے رہے، جو اپنے آپ کو سرزمین کے عشق میں قربان کردیا۔

انہوں نے اچھے نمبروں سے بورڈ امتحانات پاس کر لیا۔ آگے پڑھنے کیلئے گورنمنٹ ہائی سکول ہندو محلہ میں داخلہ لیا۔ تو اسی دوران مارشل لاء لگ گیا جس کے بعد فوجی حکومت قائم ہوا۔ یہ غالبا 2002 تھا۔ اسی دوران بلوچستان میں آپریشن کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو چکا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر اللہ نظر تربت میں بی ایس او کے ایک سیشن میں اپنی تاریخی تقریر کرنے کے بعد بی ایس او آزاد کا اعلان کر دیا۔ تو اسی میں بی ایس او خاران زون کے کچھ کونسلر موجود تھے۔

یہی کونسلر جب واپس خاران آئے تو ہر مجلس اور دیوانوں میں ڈاکٹر اللہ نظر کے اس بائیکاٹ کا ذکر چھیڑتے تھے۔ تو شہید نورالحق ہر وقت ان مجلسوں میں جاکر بیٹھتے اور ڈاکٹر اللہ نظر کے اس بائیکاٹ کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے تھے. یقیناً یہ جستجو آپ میں بچپن سے ہی تھا کہ سیاست سے واقفیت رکھ کر بلوچ و بلوچستان کو بندوق کی توسط سے غلامی کے اس لعنت سے نکال سکیں۔ جستجو جس میں ہو کسی بھی چیز کو وہ ضرور اپنا منزل حاصل کرسکتا ہے، کیونکہ جستجو امید کو ابھارتا ہے جو زندہ انسان کی پہچان ہوتی ہے۔

آپ نے خاران جیسے پسماندہ ذہنیت کے لوگوں میں رہ کر دن رات بلوچ جہد آزادی کیلئے کام کیا، جس میں بی ایس او آزاد کو منظم و مستحکم بنانے میں آپ کا بہت بڑا کردار تھا ۔ جس وقت بی ایس او آزاد جیسی انقلابی اسٹوڈنٹ تنظیم کو کچھ مفاد پرست اپنے جیب گرمی یا ذاتی مراعات حاصل کرنے کیلئے استعمال کررہے تھے، آپ نے اپنے ذات کو نفی کرکے اس وقت اجتماعیت کو روح بخش کر بی ایس او آزاد خاران زون کو ایک انقلابی آرگنائزیشن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

آپ نے میٹرک کی تعلیم 2005 میں گورنمنٹ ہائی سکول ہندو محلہ سے حاصل کیا، اس کے بعد آپ کالج میں مزید پڑھنے کیلئے کوئٹہ چلے گئے، وہاں جاکر بھی آپ نے اپنے اندر کے انقلاب کو دبنے نہیں دیا۔ بی ایس او آزاد سے انتہائی مخلصی کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے اور جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ کالج کے دوران 2007 میں آپ نے مری کیمپ میں ٹریننگ حاصل کرکے باقائدہ مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار کرلیا تھا۔ جن کے مخلصانہ کردار کی مثال صرف اور صرف بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے منسلک نہیں تھا بلکہ پورے بلوچ آزادی کیلئے مشعل راہ ثابت ہوگئی ۔

مزاحمتی تنظیم سے تعلق کے بعد آپ کی ذمہ داریاں اور زیادہ بڑھ چکیں تھیں، آپ سے ملاقات کا موقع نہیں ملتا تھا لیکن آپ ہمیشہ کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے ہماری تربیت کرتے رہے، جس کی وجہ سے ہم شخصت پرستی اور گروہی سیاست کی اصل شکل سے واقف ہوئے تھے لیکن کچھ بدبخت آج بھی اسی شخصیت پرستی پر عمل پیرا ہوکر تحریک میں رہ کر تحریک کو نقصان دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔

یہ آپ کی بہترین حکمت عملی ہی تھی، جو کئی سالوں تک مسلح تنظیم میں رہ کر خود کو کیموفلاج کرکے، دشمن پر آسمانی بجلی کی طرح گرتے رہے۔ آپ نے جنگ میں ذات کو کوئی اہمت نہیں دیا ہوا تھا۔ اس لئے شہادت سے پہلے آپ ایک گمنام سرمچار بن کر قومی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ مگر شہرت کے بھوکے کل بھی اپنی ذاتی سنگار میں مصرف تھے، آج بھی صرف اور صرف اپنے ذاتی سنگار کیلئے قومی تحریک کو ایک ڈھونگ کی طرح استعمال کررہے ہیں۔ شہید نورلحق ہمیشہ حقیقت کو دوٹوک الفاظ میں کہا کرتے تھے، اس لئے ان کو مفاد پرستوں سے اکثر تقید برائے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔

زندگی میں ایسے لمحات پر ضرور زور سے چیخ کر رونے کو من کرتا ہے، جب فکری ساتھیوں سے بہت کم ملنے اور کم سیکھنے کو ملے۔ مسلسل فون پر حال احوال کرتے رہے اور 2012 میں ایک دن میں بیٹھا دوستوں سے مجلس میں مگن تھا کہ اچانک موبائل میں ایک فکری دوست کا میسج موصول ہوا، جس میں لکھا تھا کہ نورالحق اور ایک دوست موٹر سائکل سے گر کر شدید زخمی ہوئے ہیں۔ کچھ زیادہ ہی پریشانی دماغ پر طاری ہوا۔ خیر دو دن بعد پھر اسی دوست کا میسج رسیو ہوا کہ خیر ہے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے سنگت نورالحق کا پیر گرنے کی وجہ سے ٹوٹ گیا ہے جس کی علاج کیلئے محفوظ جگہ بھیج دیا گیا ہے۔

مسلسل جہد میں کام کو سنبھالنے کی وجہ سے کبھی ادھر، تو کبھی ادھر دوڑ و دھوپ کرتے رہے تھے۔ پیر ٹوٹنے کے باوجود اپنے مخلصانہ کردار کو مزید سنوارنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیا۔ اس کے بعد رابطہ منقطع ہوچکا تھا، کئی سالوں تک اور تنظیمی اختلافات کی وجہ سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ مگر 2016 میں مخلص دوستوں کی کوششوں سے دونوں تنظیمیں ایک کیمپ کی شکل اختیار کرگئے، جس کی وجہ سے بہت سے دوریاں ختم ہوئے۔ وہ دوریاں جن کو اپنوں نے دشمنی کی شکل میں ہمارے درمیان ابھارا تھا۔ اسکے بعد روز خوب مجلسیں ہوتے رہے، مگر ہر مجلس میں اکثر مذاق کے علاوہ ایک منظم و مستحکم اتحاد پر بحث ہوتے رہے۔ جن پر شہید نورالحق اپنے نرم لہجے کے ساتھ خوب رہنمائی کرتے تھے۔ مگر 2017 کے ماہ اگست میں اپنے پیر کے آپریشن کیلئے جانے والے شہید نورالحق نے آخری بار رخصتی کے ٹائم یہ نصیحت کیا کہ چاہے جو بھی ہو، میں ہوں یا آپ ہو جنگ سے دستبردار نہیں ہونا بلکہ دشمن کی نیندیں حرام کرنا ہے۔ جب آپ گئے آپ کے پیر کا آپریشن ہوا تو آپ نے کچھ دن بعد حال احوال کرتے ہوئے کہا میں “ابھی بلکل ٹھیک ہوں پیر بھی بہت اچھا ہے، میں آؤنگا بہت جلدی”۔

مگر ہائے قسمت ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہم آپ جیسے فکری و ہیرے جیسے انمول دوست کو مولہ زہری کے دامن میں کھو دینگے، مگر ایک انقلاب لاکر کھو دینا فخر کے ساتھ ساتھ سر اٹھانے میں مدد دیتا ہے، جو کمزور جسم اور بلند و بالا حوصلوں کے ساتھ دشمن کے سامنے تین گھنٹوں تک جوان مردی کے ساتھ آپ اور شہید دلجان کا مقابلہ کرتے رہے اور گولیوں کے ختم ہونے پر شہید امیرالملک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بندوقوں سے اور اپنے ہاتھوں سے ٹریگر دبا کر اپنے ہی حلق میں گولی اتار کر ہم جیسوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ہم، آپ شہداء کی قربانیوں کو آخر سانسوں تک ضائع نہیں ہونے دینگے۔