مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی عام انتخابات کا ڈرامہ – رحیم بلوچ ایڈوکیٹ

354

مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی عام انتخابات کا ڈرامہ

تحریر: رحیم بلوچ ایڈوکیٹ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کے الیکشن کمیشن نے 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی مقبوضہ بلوچستان کو پاکستانی عام انتخابات کے متوقع منصوبے میں شامل کیاگیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی عام انتخابات کی کوئی قانونی و اخلاقی حیثیت ہے؟ کیامقبوضہ بلوچستان میں مجوزہ پاکستانی عام انتخابات بلوچ قوم کی طرف سے قومی آزادی کے مطالبے کا متبادل و معقول جواب ہیں اور ان انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں قیام امن، ترقی و تعمیر ممکن ہیں؟کیامجوزہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیاں بلوچ قوم کی نمائندہ جماعتیں ہیں؟کیا پاکستانی عام انتخابات میں حصہ لینے والی بعض جماعتوں و گروہوں کی طرف سے بلوچ قوم پرستی کے دعوے درست ہیں اور وہ پاکستانی دستوری ڈھانچہ کے اندر رہتے ہوئے بلوچ قومی آزادی، قومی تشخص، وطن اور وسائل پر اختیارات کے حصول کی جدوجہد میں کوئی مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں؟ یہ اور ان سے جُڑی کچھ بنیادی سوالات ہیں جن کااس تحریر میں جائزہ لینے اور ان کے درست جوابات تلاش کرکے بلوچ عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس طرح کے سوالات پر بحث کرنے کا یہ ایک معقول و مناسب موقع ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیامقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی عام انتخابات کی کوئی قانونی و اخلاقی حیثیت ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ ایک مقبوضہ خطہ،ایک کالونی ہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں و محکوم اقوام کے مسئلے کا حل آزادی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دنیا کے تمام اقوام، چھوٹے ہوں یا بڑے، کی حق خودارادیت،آزادی اور مساوی اقتداراعلیٰ کے حق کوبطوراساسی اصول اپنایاگیا ہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی ممالک اور اقوام کو آزادی دینے سے متعلق اقوام متحدہ کے اعلان نامہ، جنرل اسمبلی کی قراداد نمبر 1514 (xv) مجریہ 14 دسمبر 1960، میں بھی عالمی امن و ترقی خصوصاً محکوم اقوام کی معاشی،سماجی و ثقافتی ترقی کیلئے انھیں بلاعذر یا بغیر کسی حیل وحجت کے آزادی دینے پر زور دیاگیا ہے۔ ان عالمی قوانین اور بلوچ جدوجہد آزادی کے تناظر میں دیکھیں تو مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی عام انتخابات کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔

اسی طرح دوسرے سوال کاجواب بھی نفی میں ہے۔ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی عام انتخابات کا ڈرامہ بلوچ قوم کی طرف سے قومی آزادی کے مطالبے کا کوئی حقیقت پسندانہ متبادل اور معقول و مناسب جواب نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچ قوم آزادی کیلئے جس قسم کی قربانیاں دے رہاہے اور بڑی بہادری سے بدترین ریاستی دہشتگردی کا سامنا کرتے ہوئے جدوجہد آزادی کی تسلسل کو جس طرح برقرار رکھاہواہے اس سے قومی آزادی کیلئے بلوچ قوم کے پختہ عزم،ہمت اور اٹل ارادوں کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

قرائن بتارہے ہیں کہ پاکستان بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو نہ توفوجی جبروطاقت سے کسی طرح ختم کرسکتاہے اور نہ یہ دکھاوے کے انتخابات کو بلوچ عوام قومی آزادی کے متبادل کے طورپر دیکھتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاست کی جانب سے بڑے پیمانے پر خوف اور لالچ کے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جانے کے باوجود بلوچ عوام 2013 کے عام انتخابی ڈرامے کی طرح اس بار بھی عام انتخابات کے کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔

متوقع غیرقانونی اور جعلی انتخابات کے نتیجے میں مقبوضہ بلوچستان میں نہ تو کوئی قانونی نمائندہ حکومت بنے گی،نہ امن قائم ہوگا اور نہ کوئی ترقی و تعمیر ہوگا بلکہ ریاستی جبر و تشدد میں اضافہ ہوگا۔ اس جبروتشدد کے نتیجے میں عظیم انسانی المیے جنم لیں گے۔ خطے میں امن،ترقی و تعمیر کا عمل تباہ ہوگا۔جنگ و تشدد کے نتیجے میں بلوچ عوام کے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ مگر اس طرح مسلسل جنگ و تشدد کے نتیجے میں پاکستان کی تباہی بھی یقینی ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت،سیاست و سیاسی جمہوری ادارے پہلے ہی تباہ ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں قومی، لسانی، نسلی و علاقائی تعصبات و اختلافات اب دشمنی کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ پنجابی مقتدرہ کے خلاف پختون،سندھی، سرائیکی اور مہاجروں کی شکایات اب مخالفت و دشمنی کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اگر اب بھی علاقائی و عالمی قوتیں اور پاکستان کے جمہوریت پسند عناصر بلوچ قومی آزادی کے مسئلے پر پاکستانی مقتدرہ کی ریاستی دہشتگردی اور ہٹ دھرمی کو نظر انداز کرتے رہے تو اس کے نتیجے میں جو تباہی پھیلے گی اس کے منفی اثرات سے پاکستان سمیت پورا خطہ بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ اس لئے عالمی و علاقائی قوتیں اور جمہوری عناصر مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی انتخابی ڈرامے کو قومی آزادی کے متبادل کے طورپر دیکھنے اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بلوچستان کی آزادی کیلئے پاکستانی مقتدرہ پر دباؤ ڈالیں تاکہ مزید خون خرابہ، انسانی المیوں اور تباہی سے بچا جاسکے۔ بلوچستان میں قیام امن بلوچستان کی آزادی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا مجوزہ پاکستانی عام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں بلوچ قومی نمائندہ جماعتیں ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی اثبات میں نہیں ہے۔ پاکستانی انتخابی ڈرامہ میں حصہ لینے والی جماعتیں بلوچ قومی آزادی کے بنیادی فطری قومی حق اور دیگر جائز قومی مفادات و خواہشات کو نظرانداز کرکے بلوچستان پر پاکستان کے نوآبادیاتی قبضہ و لوٹ مار کو تحفظ و طول دینے میں معاون و آلہ کار کے طورپر استعمال ہورہے ہیں۔ ایسی جماعتیں جو قومی آزادی کے فطری،آفاقی قانونی حق کا مطالبہ کرنے میں بلوچ قوم کا ساتھ دینے کے بجائے قابض قوت کا ساتھ دیں وہ کسی طور بھی بلوچ قومی نمائندہ جماعتیں نہیں ہیں اور نہ بلوچ عوام ایسی جماعتوں کو اپنا نمائندہ مانتے ہیں۔

چوتھا یہ سوال کہ کیا پاکستانی عام انتخابات میں حصہ لینے والی بعض جماعتوں اور گروہوں کی طرف سے بلوچ قوم دوستی کے دعوے درست ہیں اور وہ پاکستانی دستوری ڈھانچہ کے اندر رہتے ہوئے بلوچ قومی آزادی، قومی تشخص، وطن اور وسائل پر اختیارات کے حصول میں کوئی مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی اثبات میں نہیں ہے۔ پاکستان کے غیرفطری جغرافیائی ڈھانچہ کے تحت پاکستانی عام انتخابات میں حصہ لینا مقبوضہ بلوچستان پر پاکستان کے جبری نوآبادیاتی قبضہ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے اس عمل کو قابض پاکستان اپنے نوآبادیاتی قبضہ کیلئے اخلاقی سہارا بنانے کی کوشش کریگا۔ قومی آزادی اور قومی وقار کیلئے کھڑا ہونا ہی قوم دوستی کی بنیادی صفت ہے۔ اس صفت سے محروم جماعتیں، گروہ اور شخصیات کسی طوربھی قوم دوست نہیں کہلا سکتے۔

مقبوضہ بلوچستان پر مسلط کردہ پاکستان کی نوآبادیاتی دستوری ڈھانچہ کے اندر رہتے ہوئے بلوچ قومی آزادی، قومی تشخص، وطن اور قومی وسائل پر اختیارات کے حصول کی جدوجہد میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے ان کے دعوے محض فریب ہیں۔ بلوچ قومی آزادی، قومی تشخص، وطن اور وسائل پر اختیار کا حصول تو دور کی بات ہے ایسی جماعتیں تو عمومی شہری و بنیادی انسانی حقوق کی دفاع میں بھی کوئی کردار نہیں ادا کرسکتے۔ اس کے برعکس ایسی جماعتیں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر بلوچ قوم اور قومی تحریک آزادی کے خلاف فوج و خفیہ اداروں کی ریاستی دہشتگردی میں معاون کار اور شریک جرم بنتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کی ان کی سیاست ہمارے سامنے ہے۔

پاکستانی انتخابی ڈرامہ میں حصہ لینے والی جماعتیں بلوچ قوم کے خلاف فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیوں، جبری نقل مکانی اور ماورائے عدالت قتل کی کارروائیوں سمیت انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے اقتدار اور قانون سازی کے عمل میں شرکت کے ذریعے بلوچ قوم کے خلاف ریاستی دہشتگردی کی معاونت کرتے رہے ہیں۔بلوچ قوم پرستی کی دعویدار یہ دُہرے چہرے والے اور پاکستان کی ملک گیر جماعتیں ماضی میں“بلوچ مسئلہ“ کو پاکستانی فوج کے ساتھ شراکت اقتدار کے سمجھوتوں میں بطور“بارگیننگ کارڈ”استعمال کرتے رہے ہیں مگر اب پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی منصوبہ بندی سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ آئندہ مقبوضہ بلوچستان کے معاملات میں کسی بھی سویلین اسٹیک ہولڈر کی زیرو مداخلت بھی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

سدرن کور کمانڈر کوئٹہ اور جی ایچ کیو راولپنڈی کی آشیر باد سے بننے والی”بلوچستان عوامی پارٹی“(باپ) کا قیام اس بات کی طرف ایک واضح اشارہ ہے کہ اب پاکستانی فوج و خفیہ ادارے بلوچ قوم دوستی کے دعویدار دو چہرے والی جماعتوں سمیت پاکستان کی ملک گیر پارٹیوں سے ان کا ”بلوچستان کارڈ“ چُرانے کی پوری منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ کی نئی منصوبہ بندی کے تحت 2018 کے انتخابی ڈرامہ کے بعد”باپ“ ہی بلوچستان کی نمائندگی کریگا۔”باپ“ نہ صرف بی این پی اور نیشنل پارٹی کے نعروں کو اپنائیگا بلکہ قدرے سخت لب و لہجہ بھی اپنا سکتا ہے تاکہ ان کیلئے کہنے کو کچھ نہ رہے۔ بلوچ قوم پرستی اور پاکستانی جمہوریت کے نام پر ”بلوچستان کارڈ“استعمال کرنے والے سوداگر اب ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔ کہتے ہیں کہ شر میں بھی خیر کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ فوج کی نئی منصوبہ بندی اور جعلی انتخابی ڈرامہ کے نتیجے میں مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کی نوآبادیاتی حکمرانی اور پالیسیاں کچھ زیادہ ہی ننگی نظر آئیں گی جن کا بلوچ قومی تحریک آزادی سے جُڑی قوتیں بہتر حکمت عملی اور موثر کارکردگی کے ذریعے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں

۔