شہید حق نوازبلوچ – چاکر بلوچ

904

شہید حق نوازبلوچ

تحریر: چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید بالاچ مری، شہید بابو نوروز کے کاروان کا ساتھی شہید حق نواز بلوچ ایک عزم اور ایک فکر کے ساتھ تحریک آجوئی کا حصہ بنا۔ چہرے پر گرتے بال، لبوں پر سجی ہر وقت ایک مسکراہٹ، ہر وقت ہر کام کیلئے تیار رہنے والا حق نواز مختصر مدت میں اپنے دن رات کے محنت مخلصی و قابلیت سے تحریک میں اپنا ایک مقام بنا لیا۔ شہید حق نواز آپ کے جانے کا یہ وقت نہیں تھا، آپ کو تو بہت سارےمزید کام کرنے تھے۔ آپ سارے کام دوستوں کے نازک کندھوں پر رکھ کر چلے گئے، ہماری بدقسمتی ہےکہ اسے لوگ دیر تک ہمارے ساتھ نہیں رہتے اور قومی صفوں میں حق نواز جسے دوستوں کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا اور ان کے جانے کے بعد ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

بی ایس او سے بی ایل اے تک کے سفر کے دوران حق نواز ہر کام میں اول صفوں میں دیکھائی دیتے تھے۔ شہید حق نواز کا تحریک سے بچپن سے ہی وابستگی رہی تھی۔ جس وقت بچے اپنے کھیل کود میں مصروف تھے اور آپ دھرتی ماں کی محبت اور فکر ء آجوئی میں مصروف عمل تھے۔ آج بھی گر کہیں آپ کا عکس میری نظروں سے گذرتا ہے، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم نیمرغ و پارود اور شور کے پہاڑوں میں دشمن کے خلاف محاز پہ موجود ہو۔ شہید حق نواز کی حوصلہ افزائی اور دوستوں کو شعوری راستے پر لانا اور دلوں سے دشمن کا خوف نکالنے والی خصلت کسی استاد سے کم نہیں تھا۔ دھرتی ماں سے بے حد محبت کرنے والے اس سپاہی نے شہر کے تمام عیاشیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں کا انتخاب کرلیا۔ شہید حق نواز آج جسمانی طور پہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن فکری طور وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ شہید حق نواز کے زندگی کا فلسفہ تمام با شعور نوجوانوں کے لیئے ایک مشعل راہ سے کم نہیں۔

سنگت کی بہادری اور جوان مردی دیکھ کر ہمیں بہت حوصلہ ملتا تھا، سنگت حق نواز سے میری آخری ملاقات شہر میں دسمبر کے مہینے میں ہوا۔ مجھے ایک دوست کا فون آیا کہ کوئی آپ کا دوست آپ سے ملنا چاہتاہے، اس نے دوست کا نام فون پر ظاہر نہیں کیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو شہید حق نواز موجود تھے، اسے یوں اچانک اپنے نظروں کے سامنے پاکر میں حیران ہوگیا مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ یہاں کیسے اور کیوں پہنچا۔ کافی سالوں بعد شہید کے ساتھ ملاقات ہورہی تھی، ہم پوری رات جاگتے رہے، یادوں کے پرانی کتابوں کو کھول کر بیٹھ گئے، موجودہ صورتحال پر بحث ہوا، وقت کا پتا بھی نہیں چلا صبح کا سورج نکل آ یا۔ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ شہید کے ساتھ میری یہ آخری ملاقات ثابت ہوگی۔

کچھ دن گذرنے کے بعد مجھے اسی دوست نے مغرب کے وقت فون کر کے بتایا کہ شہید حق نواز اب ہمارے درمیان نیہں رہے صبح جب اخبار میں خبردیکھا تو پتہ چلا کہ شہید حق نواز نے قلات کے پہاڑوں میں دشمن کے ساتھ بہادری سے فرنٹ لائن پر مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرلیا ہے۔

شہد حق نواز ہمیشہ جب بھی بیٹھتے، بابو نوروز زرکزئی اور اس کے ساتھیوں کے قربانی کا مثال دیتے۔ آج آپ نے اسی شہید بابو نوروز خان کے سرزمین پر وطن کے لیئے قربانی دی۔ مجید بریگیڈ کے بہادر دوست نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کردیا۔ اس جہانِ فانی سے جانا تو سب کو ہی ہے لیکن وطن کے لیئے قربان ہونا اور ایک مقصد کے لیئے جینا ہی اصل زندگی اور قربانی ہے۔