ریاست بی ایس او آزاد سے خوف زدہ کیوں؟ – محراب بلوچ

235

ریاست بی ایس او آزاد سے خوف زدہ کیوں؟

تحریر: محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

معاشرے میں نوجوان وہ طبقہ ہے، جس سے اقوام کی امیدیں وابسطہ ہوتی ہیں۔ نوجوان قوم کی تعمیر، تشکیل، ترقی، ترویج کے میدان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی قوم کے بطن میں نوجوانوں کی مختلف ذہنیت، و خیالات ہوتے ہیں۔ ہرنوجوان قوم کی آہ و زار و معاشرے کی اونچ نیچ، معاشرے میں ظلم و زیادتیوں کے خلاف اُٹھ کھڑا نہیں ہو سکتا، کیونکہ غلامانہ سماج میں ہر نوجوان عقل و فہم سے روشناس نہیں ہوسکتا۔ ہر نوجوان احساس نہیں کر سکتا، اگر نوجوانوں کے صفوں میں دیکھا جائے، تو مختلف اقسام کے لوگ نظر آتے ہیں۔ جن میں چور ڈکیت، نشہ آور، چرواہے، بزگر سمیت اکثر سماجی برائیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اسی طبقے سے وابسطہ باشعور طالب علم بھی پائے جاتے ہیں۔ جہاں قوم کی امید و امنگیں، مستقبل کے خواب انہیں نوجوان طالب علموں پر انحصار کرتی ہیں، یہی پڑھا لکھا طبقہ قوم کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح ریاستیں بھی مضبوط اداروں یا منظم پارٹیوں پر انحصار کرتی ہے، بغیر سیاسی اداروں اور پختہ رہنماوں کے بنا کوئی بھی ریاست دیر تک نہیں چل سکتی، اگر ہم اپنی سماج اور تحریک کی کامیابی کا ذکر کریں، تو ہم اداروں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کیونکہ ادارے ہی مثبت اور تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں، بلوچ سیاست کے ارتقائی عمل میں سیاسی آغاز کا ذکر کرنا چاہیئے تو سب سے پہلے ہمیں بلوچ طلبا تنظیم بی ایس او ایک ادارے کی صورت میں نظر آتی ہے۔

ایک ضرب المثل عام ہے کہ ایک عمارت کی تعمیر کا آغاز ایک اینٹ سے شروع ہوتی ہے، مگر بعد میں ایک اینٹ سے شروع ہونے والا کام انجام تک ایک عظیم الشان عمارت کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اسی طرح ہمارے سماج میں ایک ادارہ جاتی سلسلے کو آگے بڑھانے میں اینٹ کا کردار بی ایس او ادا کرتا چلا آرہا ہے۔ اگر ہم نومولود ریاست برطانیہ داد مملکت پاکستان میں بننے والی طلبا تنظیموں کا جائزہ لیں، تو ہم باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاں طلبہ تنطیمیں اپنے اصل مقصد کو واضح نہیں کرسکتے، اپنی تنظیمی پالیسی کو واضح انداز میں نہیں لاسکتے، ان جیسی بوسیدہ سماج میں باشعور نوجوان ایک تعمیری سلسلے کو زیادہ دیر تک نہیں چلا سکتے۔ جہاں وہ اپنے اصل منزل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، کیونکہ ہر تعمیری عمل کے سامنے ریاستی ادارے رکاوٹ بنتے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح تاریخِ پاکستان میں بہت سی تنظیمیں ہمت ہار کر ختم ہوچکے ہیں، پھر لابینگ، روبوٹ بن کر سامنے آئے ہیں پاکستان کے نام نہاد آزادی سے پہلے1937کوکلکتہ میں بننے ہونے والی تنظیم مسلم فیڈریشن آرگنائزیشن پاکستان میں جلدی پزیرائی حاصل کرنے کے بعد پھر بڑی مدت تک گم ہوکر رہا، ایم ایف او MFOنے اپنی اصل حیثیت کو منوانے کی تگ و دو کی مگر پاکستان جیسی دہشتگرد مقدس دینِ اسلام کا مرکز کہلانے کے باوجود اسلام کی تذلیل کرتا چلا آرہا ہے۔MFO ایم ایف او نے پاکستان کے غلط پالیسیوں کی پردہ پوشی کو دور کرنے کی کوشش کی، تو پاکستان نے ایم ایف او کو بہت دیر تک اپنے تنظیمی سرگرمیوں کو چلنے نہیں دیا۔ جو بعد میں اپنے تنظیمی اصول سے منحرف رہے۔

1980 میں ضیامارشل کے زمانے میں MFOایک بارپھر وجود میں آتی ہے، جو ریاست کے ہر پالیسی کا حصہ ہوتا ہے، اب اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں وہ ریاست کے بنائے ہوئے پارٹیوں کے ہر جرم میں شریک رہے۔

یہاں ایک اور تنظیم ڈیمو کریٹک فیڈریشن آرگنائزیشن (ڈی ایس ایف) 1949کو وجود میں آیا(پاکستان کمیونسٹ پارٹی) کی بطن سے پیدا ہوا۔ ڈی ایس ایف اسلامی تعلیمات سے تنگ آکر پاکستان بھر میں نام نہاد مذہبی شدت پسندی جیسی حرکات کا مذمت کرتا رہا۔ اداروں میں نام نہاد مذہبی طلبا تنظیموں کے خلاف رہے۔

پاکستانی مارکسزم (پاکستان کمیونسٹ پارٹی) سوچ کی مدد میں پیش پیش رہا، وہ اپنے سیاسی اظہار مختلف ا حتجاج، ہڑتال ریلیاں اور مظاہروں کی صورت میں کرتے رہے، بعد میں ریاستِ پاکستان نے 1954 میں ڈی ایس ایف پر پابندی لگادی۔

وہ طلبا تنظیمیں پاکستانی اداروں کی ہر اونچ نیچ کو قبول کرتے، وہی چل سکے۔ تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی کی کلچرل کو وسعت دی گئی، جہاں مظلوم اور محکوم قومیت سے وابسطہ طلبا پر اپنی بدمعاشی کرتے رہے اور آج بھی کررہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے طلبا ونگ جو تعلیمی اداروں کو اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں، سال میں کئی بار بلوچ و پشتون طلبا کو اپنے دہشتگردی کا نشانہ بناتے ہیں، جہاں انہیں پابند کرنے کے بجائے متاثرہ طلبا کو قصور وار اور مجرم ٹہرایا جاتاہے۔

یہ مثال میں اس لئے پیش کررہا ہوں کہ پاکستان میں وہی طلبا تنطیم چل سکتے ہیں، جو پاکستان کی غلیظ اور غیر انسانی پالیسیوں کے باعث بننے والی پارٹیوں کی جی حضوری کریں اور ان کےہراس پالیسی کا ساتھ دیں، جس سے خلائی مخلوق کو تسکین مل سکے۔ اسی طرح بلوچستان میں واحد طلبا تنظیم بی ایس او آزاد پر ریاست نے اس لیئے پابندی لگائی کہ بی ایس او آزاد بلوچ قوم کے نوجوانوں کو حقیقی تعلیم کی سمت راغب کررہی ہے۔ بی ایس او آزاد اپنی اصل مقصد اور سیاسی سوچ کے باعث بلوچ نوجوان کو سیاسی شعور اور عملی بنیادوں پر آراستہ کرنا، بلوچستان کی تاریخ و جغرافیہ کی اہمیت سے واقف کرنا ہے۔ بلوچ قوم کی زبان، کلچر، ثقافت، تہذیب وتمدن کی اہمیت سمیت بلوچ نیشنلزم کے جزبہ سے سرشار کرانا ہے۔ بی ایس او آزاد کے یہی اعمال ریاستِ پاکستان کو گوارہ نہیں ہوئے۔ اس لیئے بی ایس او آزاد کے مرکزی رہنماوں سے لیکر کارکنوں کو اُٹھا کر لاپتہ کیا جاچکا ہے اور کیا جارہا ہے، جن میں چند کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاچکی ہیں۔

بی ایس او آزاد قابض پاکستان کا زیر عتاب اس لیئے ہوتا چلا آرہا ہے کہ ان ریاستی لوٹ کسوٹ و استحصال میں ریاست پاکستان کے ساتھ شریک نہیں، بی ایس او آزاد خالصتاً اپنی قومی غلامی کے خلاف برسریپکار ہے، جو پاکستان میں باقی طلبا تنظیموں کے باعث تعلیمی اداروں میں مشکلات کا سامنا کررہی ہے، اسی طرح گزشتہ سال 15 نومبر کو کراچی سے سندھ رینجرز اور خفیہ اداروں کی طرف سے بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء بلوچ سی سی ممبر نصیر احمد، حسام بلوچ اور بی این ایم کے معذور کارکن رفیق کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا۔ جو تاحال ریاستی عقوبت خانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔ میں عالم انسان اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ بی ایس او آزاد کے ساتھ ہونے والی ریاستی مظالم کو روک لیں اور بی ایس او آزاد کے تمام لاپتہ کارکنان کو باحفاظت بازیاب کرانے میں اپنا اخلاقی اور انسانی فرض نبھائیں۔