ریاستی انتخابات کا ڈھونگ – ریاض بلوچ

522

ریاستی انتخابات کا ڈھونگ

تحریر : ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

27 مارچ 1948کو پاکستانی قبضہ گیریت کے سیاہ دن سے لیکر آج تک مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی ریاستی الیکشن، مردم شماری کا کوئی قانونی اور آئینی جواز نہیں بنتا ہے. پاکستان بلوچستان میں بندوق کی نوک پر قابض ہے، بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے اور مقبوضہ علاقے میں کوئی بھی عمل وہاں کے باشندوں کی رضا کے بغیر عالمی قوانین کے مطابق غیر قانونی سمجھا جاتا ہے. بلوچ قوم کی جانب سے گذشتہ مردم شماری کا بائیکاٹ ہی موجودہ نام نہاد انتخابات کے غیر آئینیت کیلئے کافی ہے. بلوچ قوم نے نام نہاد حالیہ مردم شماری کا بائیکاٹ کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ کسی بھی ریاستی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے قومی غلامی کو قانونی جواز مل سکے اور مزید تقویت پہنچے۔

بلوچ من حیث القوم بلوچستان کی مالک ہیں، جسکی ایک تاریخی حیثیت اور حقیقت ہے جو ایک ارتقائی عمل سے ہوکر یہاں پہنچا ہے اور ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھتی ہے. نومولود ریاست پاکستان جو دو قومی نظریے کی ایک بے بنیاد اساس کی بنیاد پر وجود میں لایا گیا اور عالمی سامراجی سازش کے تحت آج بلوچستان پر قابض ہے. تب سے پاکستانی قومیت کا ناجائز دعویٰ کرتا آرہا ہے تاکہ بلوچ اور دوسرے مقبوضہ قوموں کا تاریخی قومی شناخت مٹایا جاسکے.

بلوچ قومی تشکیل، تہذیب و تمدن، رسم و رواج، بلوچ کی قومی اور علاقائی زبانیں ہزاروں سال کے ارتقائی عمل کے نتائج ہیں. ایک غیر فطری ریاست کو اسلام اور مذہب کے نام پر بلوچ قوم اپنی ہزاروں سال پرانی رسم و رواج، زبانیں اور اپنی زمین چھیننے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی.

ریاستی منعقدہ غیر آئینی نام نہاد انتخابات میں ریاست کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے تمام نام نہاد قوم پرست، مذہبی جماعتیں اور تمام علاقائی نام نہاد سردار، نواب، میر اور معتبر برابر کے شریک جرم ہیں. بلوچستان کے قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں میں جن بلوچ باریش سردار یا میر معتبر کو چند سال پہلے بلوچ حلقوں میں جو عزت اور مقام حاصل تھا، آج پاکستان سے وفاداری اور مراعات کے حصول کیلئے بلوچ کے نسل کشی اور بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں ریاست کے ساتھ برابر شریک جرم ہونے پر انہیں آج وہ عزت اور مقام حاصل نہیں رہا۔

پاکستان اپنے انہی کرائے کے حواریوں کے ساتھ مل کر انتخابات کو کامیاب کرانے کیلئے مختلف طریقوں سے بلوچستان میں مظالم ڈھا رہے ہیں. بلوچستان کے دور دراز منتشر آبادیوں کو بندوق کی نوک پر فوجی کیمپوں کے قریب زبردستی منتقل کر رہے ہیں تاکہ انہی محصورین سے زبردستی ووٹ ڈلوایا جا سکے. الیکشن سے کچھ مہینے پہلے انہی حواریوں کی خواہشات پر لوگوں کے بچوں کو فوجیوں سے اغواء کروایا تھا کہ ان بچوں کے والدین ان کے پاس آئیں اور بچوں کو چھڑوانے کیلئے ووٹ دینے کی ضمانت دے سکیں. ریاست: بلوچستان میں پچھلی الیکشن کی بری طرح ناکامی کے بعد ہر طرح کا حربہ استعمال کر رہی ہے.

پچھلے چند سالوں میں بلوچ آزادی کی تحریک کی کامیابی اور ریاستی مسلسل ناکامی سے ریاست خوفزدہ ہوگیا ہے. ریاست کی حتیٰ الوسع کوشش یہی ہے کہ ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کرسکے، جو چند سال پہلے کا تھا جب لوگ گھر گھر انتخابی مہم چلاتے تھے، نوجوان پارلیمانی پارٹیوں کے جھنڈے لگاتے تھے. جوق در جوق شمولیتوں کا ڈرامہ رچتا تھا. “مخالفین کی نیندیں حرام کریں گے” یا ” یہ الیکشن مخالفین کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا “وغیرہ وغیرہ کے نعرے لگتے تھے، یہ پاکستانی طرز کا سیاسی ماحول اب بلوچ مکمل رد کرچکا ہے. اور جسے ایک دفعہ پھر پاکستانی ریاست اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر بلوچ سماج میں رائج کرنا چاہتا ہے اور ہمیں ریاست کی سوچ اور سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے. اسے ہم نے ہی ناکامی سے دوچار کرنا ہے۔

ایک انتخابی کلچر کو فروغ دینے کے لیے ریاست اپنے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو سامنے لا رہا ہے، تا کہ تمام لوگوں کو انتخاب کیلئے متحرک کرنے کی کوشش کرے. ہر حلقے سے نام و گمنام لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ کر کاغذاتِ نامزدگی جمع کروایا جا رہا ہے، تاکہ الیکشن کیلئے ماحول بنا رہنا چاہیئے۔

راتوں رات “باپ” کے نام سے نئی پارٹی بنا کر ڈیتھ سکواڈ کے سربراہوں، ڈرگ مافیا کے سرغنوں اور مذہبی دھشت گردوں کو یکجا کیا گیا. جن سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ سب ایک ہی باپ “پاکستان” کے ہی ناجائز اولاد ہیں اور سب کا مقصد ریاستی گھناؤنے عمل کو آگے لیجانا ہے.

آج بلوچ قوم کے ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے قومی آزادی کیلئے قربانی دی ہے جن کا لہو صرف ایک آزاد بلوچ قومی ریاست کی تشکیل کی جدوجہد میں بہا ہے. پاکستان اور اسکے حواری یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بلوچ قوم نے نا کل پاکستانی قبضہ اور اسکے غیر قانونی اور آئینی مردم شماری اور انتخابات کو قبول کیا تھا اور نا آج قبول کریں گے. آج بلوچستان میں کوئی ایسا گھر یا جھونپڑی نہیں جہاں پاکستانی فورسز کے ظلم و بربریت کے نشان نا مل سکیں.

پاکستان کے زر خرید حواریوں کو ان ظلم زدہ بلوچوں کے پاس ووٹ مانگتے ہوئے زرہ برابر شرم تو آنی چاہیئے، جب رات کے اندھیرے میں قبضہ گیر فورسز انکے گھروں میں چور اور ڈاکوؤں کی طرح گھس کر انہیں یر غمال بنا کر گھروں میں لوٹ مار کرتے ہیں، بلوچ ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کرتے اور بچوں بوڑھوں کو اٹھا کر لیجاتے ہیں. تب کہاں تھے وہ نام نہاد قوم پرست جو آج ووٹ کی بھیک مانگنے کی خاطر بلوچ ننگ و ناموس اور ساحل وسائل کا نعرہ لگاتے ہیں؟

پچھلے تیس سالوں کی پاکستانی نیم جمہوری نظام کا حصہ بننے والے یہ نام نہاد قوم پرست بلوچ قومی غلامی کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ہر بار ریاست کے ہاتھوں بلوچ قوم کے خلاف استعمال ہوتے آرہے ہیں. بلوچ سرزمین پر ایٹمی دھماکے سردار اختر مینگل کی دور حکمرانی کی سیاہ سوگات ہیں. گذشتہ ڈاکٹر مالک کی حکومت میں قریباً سینکڑوں بلوچ، شہید یا اغواء کیے گئے ہیں.

بلوچ قوم کے پاس ذرائع إبلاغ نہیں ہے اور ریاستی میڈیا بلوچ قوم کیلئے لکھتا ہے نا آواز اٹھاتا ہے اور نا کبھی سچ کو بیان کرنے کی ہمت کی ہے. بلوچ کا عالمی میڈیا سے رسائی نا ہونے کے برابر ہے. سوشل میڈیا ہی ایک واحد زریعہ بچ گیا ہے۔ جس کے ذریعے بلوچ اپنی آواز کو دنیا بھر میں پہنچا سکتا ہے، لہٰذا ہمیں اس ٹول کو صحیح معنوں میں استعمال میں لاتے ہوئے دنیا کے سامنے ریاستی انتخابی ڈھونگ کو آشکار کرنا ہوگا۔