ذرا مُسکرا دو، چراگ شاشان بلوچ

683

ذرا مُسکرا دو، چراگ

شاشان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چراگ ، آج آپ کواپنے دوستوں کے ساتھ لاپتہ ہوئے سات مہینہ مکمل ہوچکا ہے، ان سات مہینوں کے دورانیے میں میرا کیا حال ہوا ہوگا، وہ میں ہی جانتا ہوں۔ مگر ان سات مہینوں میں آپ دوست کس حال میں رہے ہو؟ وہ انتہائی تکالیف اور ٹارچر سے بھرے ہوئے اذیت ناک لمحات ہونگے۔ چونکہ ہم بخوبی واقف ہیں ان فرعونی کردارسے جہاں ہم سے ہمارے بچھڑے ساتھیوں کی مسخ شدہ لاشیں خود بیان کرچکی ہیں۔ اسی طرح ایک خوش نصیب شخص تربت سے ان درندوں کی چنگل سے جب آزاد ہوا، تو میرا کوئی قریبی ساتھی ان سے ملنے گیا، تو وہ شخص رو رو کر اپنے آپ پر ہونے والی اذیت سے بھرا داستان سناتا رہا۔ اسی دوران گہری سانس لیتے ہوئے خاموش ہوا، جب میں نے پانی پیش کیا تو بولا میں نے رسول جان نامی ایک قیدی دیکھا، جو کولواہ کا رہائشی ہے، میں نے جلدی سے جواب دیا “ہاں ہاں بولو۔۔۔ میں جانتا ہوں اسے، وہ ہمارے سر رسول جان ہیں، جو تربت ڈیلٹا لینگوئج سینٹر میں ہمیں انگلش پڑھاتا تھا۔” بولا دوست آپ کا سر انتہائی سخت ٹارچر سے گذراہے جہاں وہ اپنی ذہنی اور نفسیاتی ہوش و حواس کھو چکا ہے، اب وہ انسان نہیں بلکہ ایک زندہ لاش کی صورت عقوبت خانے میں بند پڑا ہے، میں کرب میں مبتلا اپنے باقی لاپتہ ساتھیوں کے بارے میں سوچ میں کھوگیا۔ شاید ان کا بھی حال سر رسول جان جیسا ہوگا۔ جب دیر نہ ہوئی تو تربت میں ایف ڈبلیو کے اہلکاروں پر حملہ ہوا تو ردعمل میں پانچ لاپتہ افراد کی لاشیں پھینک دی گئیں۔ جن میں میرا دوست اور سر رسول جان بھی شامل تھا۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد عقوبت خانوں میں بند بلوچ سیاسی کارکنان کے ساتھ ہونے والی غیر انسانی اعمال کی وضاحت ہے۔ ان سات مہینوں میں میرے لیڈرز اور پڑھے لکھے دوست عزت، چراگ، نودان اور لکمیر سمیت تمام لاپتہ افرادکے ساتھ بھی یہی غیر انسانی عمل ہورہا ہوگا۔ ان درد بھری کہانیوں کے بے شمار کردار۔۔۔

ان کرداروں میں سے میں آج چراگ جان سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں، چراگ سے شکایت کرنا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی ان سات مہینوں کے فاصلے اور دوری پر ایک التجا کرنا چاہتا ہوں کہ چراگ جان۔۔۔۔۔۔ ذرا مُسکرا دو۔۔۔۔تھوڑا ہنس دو، کب سے میر ے بدنصیب کان آپ کی مبارکِ آواز سننے کیلئے ترس رہے ہیں ۔۔۔۔۔ میں کب سے آپکا مُسکراتاہوا چہرانہ دیکھ سکا ہوں۔ چراگ آپ میرے لیئے وہ عظیم استاد ہو، جس طرح یونان میں افلاطون اور ارسطو کیلئے سقراط ہوا کرتا تھا، چونکہ آپ ہی کے بدولت میں نے پڑھنے اور جینے کا سلیقہ سیکھا ہے، آپ ہی نے مجھے عام آدمی سے ایک انسان بنایا، مجھے انسانیت کی راہ دکھائی، مگر آپ خود اتنی جلدی میں ان درندوں سے انسانیت کی بقا کیلئے لڑ پڑے۔ مجھے یقین ہے کہ اس لڑائی میں جیت انسانیت کی ہوگی۔ جیت آپ کا ہوگا، مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ایک تماشائی ہونے کے بجائے کوئی کردار ادا کرپاونگا یا نہیں؟ میں چراگ جان کے سوچ کو اپناونگا یا نہیں؟ مگر اہل انسان ان عظیم کرداروں کو ہمیشہ اپناتی رہے گی، جو اپنی قومی شناخت اور بقا کیلئے اپنی قیمتی جانوں کو قربان کرچکے یا کررہے ہیں۔

چراگ آپ سے التجا کرتا چلوں کہ ان پرکھٹن حالات میں صرف جینے کی کوشش کرنا، چونکہ آپ کے جینے سے مجھ جیسے بے شمار آدمی شاید انسان بننے کی کوشش کرپائینگے۔ چراگ میں جہاں جن دوستوں سے مل چکا ہوں وہاں صرف آپ ہی کی کمی کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے۔ سب ہی کی خواہش ہے کہ چراگ جیسا رہبر تاحیات ہم جیسے حیوانوں کو انسان بنانے میں کردار ادا کرتا رہے۔ آپ ہی وہ انسان ہو، دوست شاید ان سفاک درندوں کو حیوانیت سے انسان اور انسایت کا سبق سکھا سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پر تشدد کرنے والا شخص بعد میں روتا ہی رہے گا کہ وہ ایک معصوم اور عظیم انقلابی کامریڈ چراگ جیسے انسان دوست پر غیر انسانی عمل کرچکا ہو۔ چراگ اذیت کے دوران غیر انسانی عمل سے یقیناً آپ کے آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے آنسو آپ کے دشمن پر ایک دن سونامی جیسا سیلاب بن کے امڈیں گے۔ چراگ تم تو اندھیری کوٹھڑیوں کا وہ چراگ ہو جہاں سارے قیدی اس قندیل کو اپنی چراگ ہی سمجھتے ہیں۔ چراگ آپ تکالیف سے بھری عقوبت خانے میں بند قیدوں کو حوصلہ دینے کا باعث بن سکتے ہواور یہی حوصلہ دشمن کی شکست کی عکاسی کرتا ہے۔

چراگ آپ کو جسمانی تکلیف دینے کے بعد جب اپنی کھوٹی میں لایا جاتا ہوگا، تو یقیناًعزت جان کو سخت تکلیف ہوگا، مگر وہ آپ کی خاطردھیمی مسکراہٹ چہرے پر سجاتا ہوگا تا کہ میرے چراگ جان کے حوصلے بلند رہیں۔ وہ ان تکالیف کو اپنی آنسوُوں کے بجائے مسکراہٹ میں بدل دے۔

قارئین! میرا اور آپ سب کا چراگ انسانی روپ میں جانوروں کو مُسکراہٹ سکھاتا رہے گا، یقیناً چراگ ان انسان نما حیوانوں کو اس بات پر قائل کرپائے گا کہ بزور ظاقت آپ بنگال پر حکمرانی نہ کرپائے، اسی طرح آپ ہماری بلوچستان پر حکمرانی نہیں کر سکتے۔ مجھے یقین ہے چراگ اپنے دوستوں کے ساتھ سرکاری عناصر کو دلیل اور منطق کے ساتھ بی ایس او کی جدوجہد کو قبول کرواتا رہے گا۔ چراگ یقیناً حمید بلوچ کے پھانسی کا ذکر ان بزدلوں سے کرتا ہوگا کہ بی ایس او کے حمید بخوشی اور نارمل بی پی کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چومُتا ہوا شہادت قبول کرتا ہے۔ چراگ جان یہ بھی وضاحت کرتا ہے کہ ہم بھی بی ایس او کے مقدس پلیٹ فارم سے حلف اٹھا کر آئے ہیں۔ ہم بھی سوچِ حمید زندہ رکھتے ہیں، آج لاتعداد حمید آپ کے ہاں ٹارچر سہہ رہے ہیں، جن میں ذاکر،زاہد،ثنااللہ،شبیر،حسام سمیت بہت سارے گمنام قومی بقا اور قومی آزادی کے پاداش میں پابند سلاسل ہیں، چراگ دعا ہے کہ آپ اپنے دوستوں سمیت تمام لاپتہ افراد کے ساتھ باحفاظت بازیاب ہوکر واپس آئیں، ڈھیر ساری طویل داستانوں سے بھری ڈائری، جس میں غم اور خوشی سے وابسطہ یادیں پڑھ کر آپکو سناوں گا۔

آخر میں اس بات کو دہراتا چلوں کہ بی ایس او کی قومی تحریک میں بیش بہا قربانیاں بلوچ قوم بلخصوص بلوچ نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں، جو ہم سب کو اپنانا ہوگا، ان تکالیف اور اذیت سے جڑے کارناموں کے روایت کو زندہ کرکے ہم دنیا میں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جی پائینگے۔