ذاکر مجید بطور آئیڈیل – بیبرگ بلوچ

740

ذاکر مجید بطور آئیڈیل

بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

”جب نا انصافی قانون بن جائے، تو مزاحمت فرض بن جاتی ہے۔ چے گویرا“

وہ شاید چے گویرا کے اس قول پر عمل پیرا ہو کر میدان عمل کا حصہ بنا تھا، کیونکہ انقلابیوں کے درمیان کوئی سرحدی تفریق نہیں۔ سب انقلابیوں کا ایک ہی مقصد و نصب العین ہوتا ہے، سامراج کے چنگل سے انسانیت کی آزادی۔ اس کا دل اپنے وطن میں اپنے لوگوں کی بے بسی پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اس کے لئے اس نے سیاسی مزاحمت کا راستہ چنا اور مزاحمت کو اپنے لیئے فرض جانا وہ مزاحمت کی آخری گہرائی،اونچائی اور آخری نقطے پر پہنچ چکا تھا۔ اس لئے کہتے ہیں ”یہ آزادی خون مانگتی ہے، چاہے وہ آپ کا خون ہو یا دشمن کا خون ہو، لیکن دھرتی ماں خون مانگتا ہے۔ دھرتی اور انقلاب بغیر خون بہائے نہیں آتے، وہ قومیں جو جنگ کرنا نہیں جانتے، ان قوموں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں“ اور مزاحمت کا بہترین راستہ تشدد کا راستہ ہے یعنی اگر آپ اپنے وجود کو بچانا چاہتے ہو، جس وجود کو دشمن سے خطرہ ہے اور دشمن اس کو مٹانا چاہتا ہے، اس کو بچانے کا واحد راستہ تشدد ہے۔ اسی لیئے وہ عدم تشدد کے بارے میں کہتے ہیں ”اگر یہی عدم تشدد کا فلسفہ رہا، تو دنیا سے آپ کانام و نشان اس طرح مٹ جائے گا جس طرح ریڈ انڈینز کا“

ذاکر مجید محض برائے نام سامراج دشمن نہیں تھےبلکہ وہ ایک حقیقی سامراج دشمن تھے۔ وہ سامراج کے نس نس سے واقف تھے وہ اس سے شدید نفرت کرتے تھے۔ اس کو کچل دینا چاہتے تھے، کیونکہ یہ حب الوطنی کے احساسات کو برباد کرکے ختم کر دیتا ہے، اس لئے وہ ہر جلسے کے تقریروں میں سرکاری فوج اور اس کے ہمنواؤں اور کاسہ لیسوں سے برسر پیکار تھا، دشمن کو للکارتے ہوئے کہتا ہے”آپ کون ہوتے ہو، ہمیں غلام بنا کر رکھنے والے، ہمیں تو تمہارے بڑے حاکم انگریز سامراج بھی غلام نہیں بنا سکا“

چے گویرا کی طرح جہاں آپ پیدا نہیں ہوئے ہیں، وہاں جاکر غلامی کے خلاف محکومی کا سبق لے کر اس قوم کے پسماندگان کو قوت بخشنا شاید آپ کے وطن کے آزادی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ہر قوم کی آزادی کی بات کرنا آپ کے وطن کی جنگ ِ آزادی کی ایک منزل ہے۔ وہ اس انقلابی روح کو دوسروں قوموں کے عوام میں پھونکنا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ سندھی قوم کو مخاطب کر کے کہتے ہیں ”بلوچستان ہو یا سندھو دیش،آیا سندھو دیش کے اندر رہتے ہوئے آپ لوگوں کو اتنا درد ہے کہ جتنا درد جی ایم سیدکے اندر تھا یا شاہ عبدالطیف بھٹائی کے اندر تھا۔ ابھی آپ سندھیوں کو اور ہم بلوچوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کہ اس بغاوت کی راہ پر چل کر آزادی کے لئے لڑنا ہو گا یا اسی طرح غلامی کی زندگی بسرکرنا ہوگا۔ کس نے حق دیا ہے پاکستان کو کہ بلوچوں اور سندھیوں کو غلام بنا کر رکھے یا وہاں پر پشتون بھی ہو لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی جو فوج بنی ہے اس میں یہی پنجابی بھی ہے، پشتون بھی ہے وہاں پر کچھ سندھی بھی بیٹھے ہیں“

غلام اور غلامی کی زندگی سے انتہا درجے کی نفرت کرتا تھا کیونکہ غلام قوم کو نو آباد کار غیر تہذیب یافتہ، وحشی، جاہل گوار بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ غلام انسان کو اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے کا حق نہیں ہے، اپنے خواب پورا کرنے کا حق نہیں ہے۔ جو غلام قومیں ہوتی ہیں، وہ ذلت، خواری اور احساس کمتری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سماجی و معاشی ناانصافی سمیت ظلم و جبر کا تہہ در تہہ شکار ہو کر ہمیشہ کیلئے غلامی کی زندگی میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ غلاموں کی قسمت اور کوئی نہیں بدلتا بلکہ ان کو خود جدوجہد کرنا چاہیئے ہوتا ہے۔ اس لیئے ذاکر مجیدغلامی کی نفرت لئے کہتے ہیں ”جو غلام قومیں ہوتے ہیں وہ اس رکھیل کی مانند ہوتے ہیں کہ ہر رات ایک نیا بندہ اس کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے، ہم اس بات کو تسلیم کر سکتے ہیں کیاکوئی باضمیر انسان،کوئی غیرت مند انسان برداشت کر سکتا ہے کہ اسکی ماں کے ساتھ کوئی غیر مرد ہم بستری کرے؟ تو پھر ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ دھرتی بھی ماں ہے۔“

آج زاکر مجیدکو لاپتہ ہوئے نو سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن کسی کو بھی یہ غالب گمان نہیں کہ وہ دشمن کے زندان میں زندہ ہے کہ نہیں لیکن آج بھی وہ ہر بلوچ نوجوان خصوصاً بی ایس او آزاد کے ہر کارکن کے سینے میں توانائی کے سر چشمے کی مانند موجود ہے۔ بلوچ آزادی کے تحریک میں بطور آئیڈیل ہر روح میں موجود ہے۔