ترک صدارتی انتخابات میں طیب اردوان فتح یاب

133

ترک انتخابات: اردوغان کی جیت، ترکی نئے عہد صدارت میں داخل

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان ملک میں صدارتی انتخاب میں واضح جیت کے بعد اب وسیع پیمانے پر طاقت اور اختیارات حاصل کر لیں گے۔

ان کی کامیابی کے بعد ملک کی پارلیمان کمزور ہو گئی ہے اور پچھلے سال کے ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔

شکست خوردہ صدارتی امیدوار محرم انسے نے کہا کہ ‘ملک اب ایک خطرناک دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں یکطرفہ طور پر حکومت کی جائے گی۔’

واضح رہے کہ سرکاری میڈیا کے مطابق طیب اردوغان کو 53 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے قریبی حریف محرم انسے کو بڑی انتخابی مہم کے بعد 31 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

صدر اردوغان نے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے اور ملک میں ان کے لیے واضح حمایت ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے مخالفین کے خلاف کئی اقدامات کیے ہیں اور کسی بھی قسم کی مخالفت کو دبانے کے لیے اپنے حریفوں کو حراست میں لیا ہے اور جس کے نتیجے میں اس وقت 160000 افراد جیلیوں میں بند ہیں۔

انتخابات کا انعقاد کیسے ہوا تھا؟

انتخابات کے دوران سیکیورٹی کافی سخت تھی اور اس وقت خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مخالفین پر دباؤ ڈالا جائے گا اور انتخابی عمل میں دھاندلی ہو گی۔

سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق ووٹ ڈالنے کا تناسب 87 فیصد رہا۔ الیکشن کی نگرانی کرنے والے یورپی مبصرین نے کہا ہے کہ صدر اردوغان کو واضح حمایت حاصل تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں جس طرح کا ماحول قائم تھا اس سے فائدہ صرف ان ہی کی جماعت کو ہوا ہے۔

‘افسوسناک طور پر ان کے مخالفین کو برابری کے مواقع نہ مل سکے جس سے وہ اپنی انتخابی مہم بھرپور طور پر چلا نہ سکے۔’

تنظیم کے مطابق ملک میں 2016 سے لگائی جانے والے ایمرجنسی کے نتیجے میں آزادی اظہار رائے کافی متاثر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے مخالف جماعتوں کو نقصان ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کی کرنسی لیرا کو بھی نقصان پہنچا ہے اور صدر اردوغان نے مرکزی بینک کو شرح سود بڑھانے کا حکم دیا تھا۔

اس کے علاوہ دہشت گردی ترکی کے لیے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور ملک میں کرد حملہ آوروں اور شدت پسند جہادیوں نے متعدد مواقعوں پر حملے کیے ہیں۔

یاد رہے کہ 2016 میں ترکی میں اس وقت ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی جب جولائی میں فوج نے صدر اردوغان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی لیکن انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے بعد سے ترکی میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا تھا جبکہ 50000 سے زائد افراد جیلوں میں قید ہیں اور مقدمات کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں۔