امریکہ کا طالبان سے مذاکرات کےلئے پاکستان سے مدد کی اپیل

258

امریکہ نے تصدیق کی ہے کہ اس نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ طالبان شورش کے سلسلے میں براہ راست مذاکرات میں افغان حکومت کی مدد کرے۔

دباؤ کے شکار تعلقات اور اعلیٰ سطح پر باہمی رابطوں میں خلل کی صورت حال کے کئی مہینوں بعد امریکہ کے نائب صدر مائک پینس اور وزیر خارجہ مائک پومپیو نے افغانستان میں سیاسی مفاہمت کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے اس ہفتے پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت سے بات کی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اعلیٰ سطح پر پگھلاؤ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب واشنگٹن ،اسلام آباد کے لیے تمام فوجی معاونت معطل اور دونوں ملک ایک دوسرے کے سفارت کاروں پر سفری پابندیوں کا اطلاق کر چکے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ڈپٹی اسسٹنٹ اور نیشنل سیکیورٹی کونسل میں ساؤتھ ایشیا اینڈ سینٹرل ایشیا کی سینیئر ڈائریکٹر لیزا کرٹس یہ وضاحت کر چکی ہیں کہ امریکہ افغانستان میں امن کے فروغ کے لیے کئی خطوط پر کوششوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہماری کوششوں کا ایک اہم عنصر یہ یقینی بنانا ہے کہ پاکستان اس عمل میں ایک تعمیری کر دار ادا کرے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے ایسے علاقوں کو جنم دیا ہے جہاں حکومت کی عمل داری نہیں ہے۔ یہ علاقے داعش اور پاکستان سے فرار ہونے والے کالعدم طالبان گروپس کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کام دے رہے ہیں۔

اسلام آباد  باقاعدگی سے اپنے حریف بھارت پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ پاکستان کو عدم استحكام کا شکار کرنے کے لیے افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کو مدد دے رہا ہے۔ نئی دہلی اور افغان عہدے دار ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

پاکستانی عہدے دار افغان تنازع کے خاتمے کے لیے طویل عرصے سے یہ کہتے ہوئے بات چیت پر زور دے رہے ہیں کہ کوئی بھی فریق میدان جنگ میں جیت نہیں سکتا۔

اقوام متحدہ بھی افغان عوام کے مصائب کے خاتمے کے لیے جلد ازجلد بات چیت شروع کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے اس اعلان کے کئی گھنٹوں کے بعد کہ ان کی سیکیورٹی فورسز یک طرفہ طور پر طالبان مخالف کارروائیوں میں ایک ہفتے کا وقفہ دیں گی، لیزا کرٹس نے ان سے بات کی۔

افغان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ فائربندی کا اطلاق حقانی نیٹ ورک پر بھی ہو گا جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے مبینہ طور پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی سے رابطے ہیں۔

کرٹس کہتی ہیں کہ یہ پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کرداروں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکے۔

پاکستان کے ایک فوجی ترجمان نے پچھلے ہفتے اس الزام سے انکار کیا تھا کہ ان کا ملک افغان شورش پسندوں کی مدد کرتا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے سیکیورٹی آپریشنز نے تمام دہشت گرد گروپس کا خاتمہ کر دیا ہے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ اسلام آباد طالبان کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ کابل کے ساتھ امن مذاكرات کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان مستحکم افغانستان سے وابستہ ہے۔

طالبان امریکہ سے براہ راست مذاكرات کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور وہ افغان حکومت سے اس وقت تک بات چیت سے انکار کرتے ہیں جب تک تمام امریکی اور نیٹو فوجی افغانستان سے چلے نہیں جاتے۔