اصل مقصد اور تحریک سے توجہ ہٹانے کی سازشیں ۔ برزکوہی

380

اصل مقصد اور تحریک سے توجہ ہٹانے کی سازشیں

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

میرا آج کا تحریر کوئی عام تحریر نہیں بلکہ ایک لحاظ سے بلکل عام تحریر ہے، منطق و دلیل سے لیس تحریر ہے بلکہ ایک لحاظ سے بلکل جذباتی اور دہرائے ہوئے جملوں کو واپس دہرانے والی تحریر ہے۔ پڑھنے کیلئے برائے کرم چند منٹ مکمل تنہائی میں توجہ صرف تحریر پر مرکوز رکھیں۔ باقی تمام تر حالات، واقعات، کیفیات، تعصبات، نفرت، ناراضی، حسد، جلن، بغض، انا، ضد اور اختلافات کو اپنے دل و دماغ سے نکال کر ایک طرف رکھ کر ٹھنڈے دماغ سے پڑھیں اور غور و فکر کرکے اس پر سوچ و بچار کریں۔ گر یہ آپ سے ممکن نا ہوپایا، بصورت دیگر آپ اس تحریر کو نظر انداز کرکے فضول و بکواس قرار دیکر کوڑے میں پھینکنے کے مجاز ہیں۔

میں بذات خود آج سے نہیں بلکہ طویل عرصے سے مختلف ذرائع اور طریقوں سے بارہا اظہار کرچکا ہوں، کررہا ہوں اور آئیندہ بھی کرتا رہوں گا کہ سوشل میڈیا کو باقی اقوام جس مقصد اور جس سوچ کے تحت استعمال کررہے ہیں، اس کے مقابلے میں آزادی پسندوں نے جس طرح اسکا استعمال کیا ہے اور کررہے ہیں اس سے قومی آزادی کی تحریک کو فائدہ آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن نقصان اتنا زیادہ کہ جتنا 2000 سے لیکر آج تک دشمن کے ریاستی جبر بربریت اور تشدد سے نہیں ہوا، آپ پوچھیں گے وہ کیسے؟

کیا دشمن کے تشدد اور جبر و بے رحمی کی انتہاء بلوچ قومی تحریک میں مایوسی، بدظنی، آپسی نفرت، آپسی لڑائی، مفادپرستی، موقع پرستی، شخصیت پرستی، خود غرضی، خود نمائی، سستی شہرت، آپسی بداعتمادی، دوری، الزام تراشی، کردارکشی، تحریکی رازوں کو افشاں کرنے کی پالیسی اور سب سے اہم جو موضوع بحث ہے تحریک سے نوجوانوں کی توجہ ہٹانے وغیرہ وغیرہ کو ممکن بنا سکا؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں (قطح نظر کم سطح میں یہ چیزیں ضرور کسی نا کسی حد تک موجود ضرور تھے) لیکن قومی تحریک کو کمزور کرنے والے یہ ناسور عوامل کو آخری سطح پر پہنچا دینے میں سوشل میڈیا نے جو کرامات دکھائے، وہ آج تاریخ کا حصہ ہے۔

اس لیئے میں آج برملا کہتا ہوں کہ کل بھی اور آج بھی شروع دن سے لیکر آج تک سوشل میڈیا میں تنقید، اصلاح، شعور، علم، غور و فکر، تبدیلی، حقیقت پسندی اور سچائی کے نام پر جو بھی کیھل کیھلا گیا اس میں سوفیصد دشمن کا ہاتھ کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ وہ اور بات ہے بڑی تعداد میں نوجوان اس بہتی گنگا میں لاشعوری یا غیردانستہ طور پر استعمال ہوکر نہارہے تھے اور آج بھی نہا رہے ہیں۔ آج بھی باقاعدہ مختلف آزادی پسند رہنماوں اور پارٹیوں کے خاص ہمدرد کارکنان، حمایتی، خیر خواہ اور ذمہ داروں کے روپ میں 24 گھنٹے سوشل میڈیا پر دشمن کے ایجنٹ سرگرم عمل ہیں۔ دوسری طرف کچھ آج بھی لاشعوری یا نا دانستہ طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ اصل قصہ کیا ہے، کہاں سے شروع ہوا کہاں پر ختم ہوگا اور تیسرا طبقہ باقاعدہ اگر براہِ راست پاکستان کے ایجنٹ نہیں ہیں لیکن اپنے اپنے ذاتی خواہشوں، ذاتی اختلافات، ذاتی ضد، ذاتی انتقام کے عوض وہ عمل اور کام کررہے جس سے براہِ راست فائدہ دشمن کو ہورہا ہے اور نقصان قوم اور قومی تحریک کو ہورہا ہے۔

مثلا سیدھا سادہ یورپ اور خلیج جانے کیلئے آسان طریقہ، کسی ایک پارٹی، ایک لیڈر کی دن رات صفت و ثناء خوانی کرنا دوسروں کی کردار کشی کرنا یعنی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر ذاتی مفاد حاصل کرنے کا رجحان سوشل میڈیا کی میدان میں آج ہر طرف، سب کی طرف شدت کے ساتھ موجود ہے۔ وہ مفاد کسی بھی قسم کے ہوسکتے ہیں، صرف یورپ اور خلیج جانے کیلئے ہی نہیں بلکہ شہرت، رتبہ، مقام، حثیت یا اختیار حاصل کرنے تخواہ یعنی معمولی سے معمولی مراعات تک جن کے ذکر سے پھر تحریر کا وزن کم ہوجائیگا۔

یعنی ہم بار بار یہ ذکر کررہے ہیں کہ پاکستانی اور پارلیمانی سیاست کے رویے اور اثرات بلوچ تحریک آزادی میں موجود ہیں، تو وہاں یہ تمام چاپلوسیاں، موقع پرستیاں، خود غرضیاں براہِ راست کھلم کھلا ہوتے تھے اور ہورہے ہیں یعنی روزانہ اخترمینگل، اسد بلوچ، ڈاکٹر مالک، ثناء زہری، قادر چنال اور اسلم رئیسانی وغیرہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں قلابازیاں لگاتے ہیں۔ آج زمان و مکان کے لحاظ سے صورتحال تھوڑی مختلف ہے، لیکن رویے، طریقہ کار اور اعمال سارے وہی کے وہی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ یہ سب چیزیں یہاں سوشل میڈیا میں ہورہے ہیں، وہاں ظاہری ہورہے ہیں۔ خیر یہاں بہت سی جگہوں پر ظاہری بھی ہورہے ہیں۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بلوچ نوجوان یہی مذکورہ روایتی قبائلی اور غیرانقلابی رویوں کی وجہ سے وہاں سے بغاوت کرکے آزادی کی جہد میں ہمسفر ہوگئے، جب یہاں سب کچھ وہی ہوبہو ہر طرف میسر ہوگا، تو پھر بلوچ نوجوان مایوس کیسے نہیں ہونگے؟ صرف فکر آزادی کے فرق کو لیکر آپ کسی کو بھی کسی صورت میں ان غیر انقلابی رویوں، طرز سیاست اور چیزوں پر کبھی بھی مطمئین نہیں کرسکتے، بشرطیکہ وہ اپنے فکر، مقصد اور کام پر مکمل علمی اور شعوری طور پر آخری حد تک انقلابی اور مخلص ہو۔

کوئی لاکھ خوبصورت اور ٹھوس دلیل پیش کرے اور کرتا رہے، کم سے کم میرا ذہن تمام تجربات و مشاہدات کے بعد اس نتیجے پر پہنچ کر کسی بھی صورت کسی من گھڑت دلیل اور جواز کو کبھی بھی قبول نہیں کرتا کہ سوشل میڈیا سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم اصل مقصد پر توجہ اور اصل کام پر بھی وقت صَرف کررہے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ یہ ہر گز ممکن نہیں کیونکہ ہمیں اب کم سے کم اپنی توانائی، صلاحیتوں اور ہنرمندی کا اچھا خاصا علم ہوچکا ہے کہ ہم بیک وقت کتنے کام کرسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا میں ایک رجحان، ایک کیفیت یا یوں کہیں کہ ایک ہیروئین جیسا نشہ ہے، جس میں مبتلا ہونے والے سے پھر قومی تحریک میں ایک فعال اور موثر کردار نبھانے کی توقع کرنا خیام خیالی ہے کیونکہ پھر اس کارکن کا پورا توجہ مقصد، کام کی لگن اور دلچسی سے ہٹ جاتا اور دوسرا بندہ اپنے آپ کو خود دل ہی دل میں تسلی دیتا اور ضمیر کو مطمئین کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ میں بھی تحریک کیلئے کام کررہاہوں۔

یہ سوشل میڈیا کا منفی کمال کہ آج کثیر تعداد میں بلوچ نوجوانوں کے تحریکی ترجیحات مختلف ہوچکے ہیں، وہ ماضی کی نسبت آج معمولی سے معمولی سوشل میڈیا سرگرمیوں کو خوبصورت الفاظ میں منہ میں پانی لیکر ایسے خوب انداذ میں بیان کرتے ہیں کہ سامنے والا ایسا سمجھتا ہے کہ جیسے اس نے دشمن کو ایک محاذ پر شکست دیکر غازی بن کر لوٹا ہے۔

دنیا کے دیگر تحاریک کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتا ہے کہ دن بدن تحریک سے وابستہ لوگوں کے سوچ کا معیار، ترجحیات، قربانی کا جذبہ، شعوروعلم، زمین سے آسمان کی طرف، پیچھے سے آگے کی طرف جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹا جارہا۔ کیونکہ تحریک آزادی سے توجہ ہٹانے کی پالیسی کسی حد تک کارگر ثابت ہورہی ہے یا ہوچکا ہے۔

باقی سب موٹے اور چھوٹے چیزوں کو چھوڑ کر بی ایس او آزاد 2010 میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ شہیدوں کی یاد صرف 13 نومبر کو منایا جائیگا تاکہ تمام شہیدوں کو خراج عقیدت پیش ہو، کوئی باقی نہیں بچے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ ہر وقت ہر مہینے شہیدوں کی برسی منانا ممکن نہیں۔ تیسری بات، ایسا ہوتا ہے تو پھر ساری توجہ صرف شہداء کی برسیاں منانے پر مرکوز ہوگا۔ لیڈرشپ سے لیکر کارکن صرف برسی منانے اور شہداء کو یاد کرنے کو اپنا کام اور ذمہ داری سمجھ لیں گے اور باقی سرگرمیوں سے ان کا توجہ ہٹ جائیگا۔ کیا آج علیحدہ علیحدہ برسی منانے کی وہی روایت سوشل میڈیا میں نہیں ہورہا ہے؟ پوری توجہ اسی طرف نہیں جارہا ہے؟ پھر 13 نومبر کی ضرورت اور اہمیت کس لیئے؟ کیا وہی رواج اور وہی رجحان سوشل میڈیا میں واپس تسلسل کے ساتھ زندہ نہیں ہورہا کہ بس پہلے شہید کے بارے میں ایک روایتی جذباتی اسٹیج پر تقریر اور آج ایک روایتی جذباتی سوشل میڈیا پر تحریر؟ اور پھر ذمہ داری پوری ہوگئی، اسکے بعد پھر انتظار میں رہنا کہ اگلے مہینے اور تاریخ کو کس کس اور کن کن شہیدوں کی برسی ہے اور میں کیسا اور کس طرح کا آرٹیکل لکھ کر اپنا قرض و فرض اور قومی ذمہ داری نبھاؤں۔ پھر اصل کام اور مقصد کہاں؟ یہ تو برسی منانا شہیدوں کو یاد کرنے کا کام بی این پی اور نیشل پارٹی بھی کررہے ہیں۔ وہ بھی گراونڈ میں کیا پھر شہداء کا مقصد پورا کررہے ہیں؟ اگر نہیں صرف تقریر و تحریر اور دعوؤں سے مقصد پورا نہیں ہوگا تو پھر وہی کام روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پرآزادی پسند کرتے رہے، پھر وہ مقصد کیسا پورا ہوگا؟

میرے خیال میں یہ تمام چیزیں شعوری یا لاشعوری طور پر اصل چیز یعنی دشمن کے ساتھ ساتھ دشمن کی ہر عمل، ہر پالیسی، ہر حکمت عملی اور ہر پیش قدمی سے توجہ ہٹانے اور بلوچ نوجوانوں کو ایشو پالٹیکس کا انجیکشن لگاکر خواب غفلت میں سلانے کی منصوبے ہیں۔ جس میں سوشل میڈیا کا سب سے اہم کردار ہے، جس کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو دشمن کی تمام قلی کییمپ ٹارچر سیلوں کی اذیت، مسخ شدہ لاشوں، آپریشنوں، بمبارمنٹ سے زیادہ بلکہ سو فیصد زیادہ خطرناک رجحان ہے۔ یہ سارے جبر و بربریت سے کم سے کم بلوچوں کی جسمانی و مالی نقصان ہوگا۔ جس سے تحریک کبھی کمزور نہیں ہوگا بلکہ شدت اختیار کریگی لیکن ذہنوں اور سوچوں کی نسل کشی سے تحریک اپاہج بن جائے گی۔ اصل چیز تو سوچ ہے سوچ ہی عمل بن کر انقلاب برپا کرتا ہے۔ آج جن چیزوں کا ہم نے ذکر کیا، وہ بلوچ نوجوانوں کی سوچ کو منقسم، منتشر، کرپٹ اور مفلوج کررہے ہیں۔ جس میں پاکستانی ریاست کا سوفیصد مداخلت ہے، دنیا کی تحریکوں پر ایک بار نظر دوڑانا چاہیئے کہ کس طرح اور کیسے تحریک سے وابستہ لوگوں کو ذہینی طور پر دشمن مفلوج کرکے ان کی توجہ اصل مقصد سے ہٹاتا ہے۔ لیکن وہاں تحریکوں میں کامریڈ لینن، چیرمین ماو، جیولیس فیوچک، جوزف مارتی، نکروما جیسے دوراندیش باصلاحیت لیڈروں نے اپنے عقابی نظروں سے اپنے تحریکوں اور تحریک سے وابستہ نوجوانوں کو ایسے اندورونی سازشوں، چالوں، دلدلوں سے بچاکر اندورونی ایجنٹوں کو طشت ازبام کرکے کیفر کردار تک پہہنچایا۔

اہم سوال یہ ہے کہ بلوچ قیادت کیوں ایسے اندورونی سازشوں پر اس وقت تک کنٹرول حاصل نہیں کرسکا ہے یا تو قیادت کی رضامندی، صلہ مشورہ اور ایماء پر سب کچھ ہورہا ہے؟ یا ہر ایک اپنی بارے میں چند حمایتی صفت و ثناء والی تحریر پوسٹ کمنٹ لائیک شئیر ٹویٹ ریٹویٹ اور پروفائل پر لگے اپنے فوٹو پر خوش ہورہے ہیں اور دوسروں کی کردار کشی، گالم گلوچ پر خوش ہیں۔ باقی بلوچ تحریک، بلوچ سرزمیں اور بلوچ قوم کا انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بلوچ قیادت انتہائی نالائق قیادت ہے، پھر قیادت کا لفظ استعمال کرنا اس لفظ کی توہین نہیں ہوگی؟

میں خود اس بات سے انکاری نہیں ہوں کہ تحریک میں کمزوریاں بلکل نہیں ہے اور تحریکی کمزوریوں پر تنقید اور بحث نہیں ہونا چاہیئے یا ان کا نشاندہی نہیں ہونی چاہیئے، یہ سب چیزیں تحریکوں کو آکسیجن فراہم کرتی ہیں، لیکن تحریکی کمزوریوں پر تنقید ان کی نشاندہی اور ان کی اصلاح اور سوال اٹھانے والا کون ہیں؟ ان کی علم، شعور، ادراک، مطالعے، تحقیق، تجربہ و عمل ریسرچ اور زوایہ نظر کا پیمانہ کیا ہے؟

سب سے ذیادہ مدلل سخت واضح علمی انداز میں اس وقت تک بلوچ دانشور صورت خان مری بلوچ تحریک کی کمزوریوں پر مسلسل لکھتا تھا اور بولتا تھا وہ بھی وقت حالات اور واقعات سے بہت پہلے، آج انکے سب کے سب اندازے و خدشات صحیح ثابت بھی ہوگئے، اس وقت میں بذات خود صورت خان کا سب سے بڑا حامی تھا، آج بھی ہوں۔ پھر تنقید سے کیوں گبھراہٹ اور خوفزدہ ہونا چاہیئے لیکن یہ جو خوف یا خطرہ محسوس ہورہا ہے، یہ صورت خان کی تنقید والا تنقید نہیں بلکہ سوشل میڈیا میں بحث اور تنقید کے نام پر ایک ریاستی ایجنڈہ ہے، جو اپنے مخصوص اور مختلف اہداف کو حاصل کرتا جارہا ہے۔ اگر اب کوئی آنکھوں پر پٹی باندھ کر کانوں میں روئی ڈال کر دماغ پر سوشل میڈیائی مراعات، موقع پرستی اور مصلحت پسندی کی نشے کا انجیکشن لگائے کچھ نہیں سمجھتا، نہ دیکھتا اور نہ سننتا ہے تو پھر یہ اور بات ہے لیکن یہ سب ایک تلخ حقیقت ہیں۔

کیا آج سوشل میڈیا میں بلوچ تحریک، بلوچ قیادت اور بلوچ پارٹیوں کے حوالے سے جو تصویر پیش کیا جاتا ہے وہ حقاہق پر مبنی ہے؟ میرے خیال میں زمینی حقائق اور سوشل میڈیا کے ماحول میں ذمین و آسمان، دن و رات، گرمی و سردی مشرق اور مغرب کا فرق ہے۔ پھر کس کو بے وقوف اور کس کو احمق سمجھ کر مذید بے وقوف بنانے کی کوشش ہورہا ہے؟ مہذب دنیا کو؟ امریکہ کو؟ انڈیا کو؟ یواین کو؟ ٹرمپ کو؟ یا خود کو؟ یا پھر دل کو بہلانے کی خاطر میں بھی تحریک سے وابستہ اپنا فرض نبھا رہا ہوں؟

جب تک سرزمین پر منظم قومی نظریاتی، فکری، سیاسی اور مزاحتمی تحریک پاکستان دشمن کے خلاف سرگرم عمل ہونے کے ساتھ ساتھ آخری حد تک بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کے سرمایہ کارویوں کو مکمل سبوتاز اور مفلوج نہیں کرسکتا ہے، اس وقت تک صرف سوشل میڈیا میں بلوچ قومی تحریک کو متعارف کرنا، دنیا کی توجہ اور کمک حاصل کرنا بلی کے خواب میں چھیچڑے نظر آنے کی مترادف ہے۔

نہ اب دنیا اتنا بے وقوف ہے، نہ کہ بلوچ قوم، بے شک تحریکوں میں پروپگنڈوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرتا لیکن پروپنگنڈہ غلط بیانی، مبالغہ ارائی، بھڑک بازی اور جھوٹ میں کافی فرق ہوتا ہے۔ تحریکی پروپگنڈہ کرنے سے پہلے ضرور یہ جاننا کہ تحریکی پروپگنڈہ خود کیا ہے؟ اور کب کس وقت اور کیسے کرنا ہوگا؟ کس وقت نہیں کرنا چاہیئے؟ کیونکہ ہمیشہ سچائی اور حقیقت ہمیشہ حقیقت ہوتا ہے۔ جس طرح فلاسفر ایمرسن نے کہا ہے کہ “تم جو کچھ ہو تمھارا اصلیت جو بھی ہے، اس کی وجود کی شور و غل میرے کانوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ تم جو کہتے ہو جو دلیلں دیتے ہو، وہ مجھے سنائی نہیں دیتے ہیں۔”

کوئی بھی تنظیم یا شخص کسی اور تنظیم یا شخص کی کمزرویوں اور خامیوں کو دلیل اور جواز بناکر، وہ تنظیم یا(شخص) اپنے آپ کو مضبوط اور منظم نہیں کرسکتا۔ ہم اپنی تنظیم یا اشخاص کو دوسروں کی تنظیمی اور شخصی کمزوریوں کے ایشوز پر ہرگز منظم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ سارے طریقے، حربے وقتی اسپرین گولی کی طرح ہونگے۔ اصل بیماری ختم نہیں ہوگا فوری بیماری کنٹرول ہوگا۔

ہمارا کوشش، سب سے بڑی کوشش بلوچ قوم اور خاص کر بلوچ نوجوانوں کی سیاسی علمی تربیت کو ممکن بنا کر ان کی تمام تر توجہ دشمن اور دشمن کے خلاف مسلسل عمل، ایسے ہی ماحول اور رجحانات کو پروان چڑھانا ہونا چاہیئے، یہی ہم سب کی اس وقت ذمہ داری ہے۔ جو قوم اور سرزمین کے ساتھ بے غرض محبت کرتے ہیں۔