پاکستانی انتخابات،غلامی کا زریعہ – جیئند بلوچ

201

پاکستانی انتخابات،غلامی کا زریعہ

جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

کیا پاکستانی پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے ہونے جارہے ہیں؟ الکیشن جس کا انعقاد 25 جولائی کو طے ہے، بائیکاٹ سود مند فیصلہ ہے؟ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کا الیکشن کو سبوتاژ کرنا بر مِحل ہے؟ پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قابض ریاست کی حیثیت سے ہمارے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے، ان کے پارلیمنٹ سے بلوچ اور بلوچستان بابت کیسے فیصلے ہوتے ہیں۔ ان فیصلوں سے مجموعی بلوچ مستقبل پر کیا منفی یا مثبت اثرات پڑتے ہیں۔

پاکستان چونکہ بطور قابض ریاست صرف اور محض بلوچستان پر اس کے اندر چپھے معدنیات اور خزانوں اور ساحل کی خاطر قبضہ جمائے بلوچ مخلوق اور ان کے لیئے زندگی کی طے شدہ حتیٰ کہ بنیادی ضروریات و سہولیات دینے سے بھی انکاری ہے، تو پھر اس کے پارلیمنٹ سے کیا حاصل ہونے کی توقع ہے؟

صرف پاکستان نہیں، کوئی بھی قابض ہو اپنے مقبوضہ سرزمین میں بسے مخلوق سے ان کی نفرت یا عداوت فطری امر ہے۔ جو رویہ پاکستان بلوچ سرزمین کے بسے باسیوں سے رکھتا ہے، بعینہ یہ معاندانہ اور مبنی بر دشمنی ہے۔ اس کا پارلیمنٹ جو بل قرار داد پاس کرے یا فیصلہ کرے، وہ صرف بلوچستان کے وسائل اپنی ملکیت و تصرف میں مستحکم کرنے کے واسطے ہوتے ہیں۔ جب مقصد بلوچستان کے وسائل پر قبضہ گیریت کا استحکام ہی ہے، تو کیا بیوقوفانہ توقع ہوسکتی ہے کہ قبضہ گیر بلوچ کے بہ حیثیت قوم پر مفادات پر سوچتی یا انہیں تحفظ دے سکتی ہے۔ اپنے پارلیمنٹ کے بل و قرار داد اور فیصلوں کے بر بریں وہ بار بار جتاتی ہے بلکہ طاقت کا استعمال کر کے جتاتی ہے کہ بلوچ اپنی جداگانہ شناخت میں کوئی قوم ہی نہیں پاکستانی ہے اور یہی امر اپنے پارلیمنٹ اور اس کے اراکین سے ہی کراتی ہے کہ ماسوا پاکستانی کسی کا کوئی شناخت نہیں، تو کیا اس سے بھی بڑھ کر بہتری کی بابت احمقانہ خیال آرائی کی جاسکتی ہے؟

قابض کے ووٹ و الکیشن کا مقصد اگر بہ حیثیت قوم بلوچ وجود و شناخت کا خاتمہ ہے، تو کیوںکر اس پارلیمنٹ میں جانے والے بھی بلوچ وجود و شناخت کے دشمن نہیں ہونگے؟ چاہے ان کا تعلق خود بلوچ قوم سے کیوں نا ہو. دراصل قابض چاہتی ہی یہ ہے کہ بلوچ یا دوسرے اقوام کے پارلیمانی ممبر ان کے دعوے کو مستند کردیں اس لیئے انتخابات کراتی ہے۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کا ستر سالہ ماحاصل سوائے قبضہ گیریت کو استحکام دینے اور کیا برآمد ہوا ہے۔ موجودہ دور میں جبکہ بلوچ قومی شناخت کو لے کر آزادی کی تحریک پاکستان کے لیئے درد سر بنا ہوا ہے، اس کی یہ ضرورت مذید بڑھ گئی ہے اور اسے بڑھ کر باڑھے کے کرائے داروں کی ضرورت پیش آرہی ہے، جن پر بلوچ قوپرستی کا اگر ٹھپہ لگا ہو تو اس کی قیمت دو چند ہے۔

ڈاکٹر مالک سے قبل اختر مینگل کے ذریعے چاغی پر ایٹم بم گرا کر بلوچستان کا سینا چِیرا گیا اور قوم پرستی کا ڈھنڈورا اس کے بھر پور کام آگیا جبکہ ڈاکٹر مالک کی صورت میں گوادر سے قیمتی وسائل خزانوں کو اونے پونے دام چائنا کے ہاتھ سودا کیا گیا، اسی طرح بلوچ قومی آذادی کی تحریک کو بھی قوم پرست پارلیمنٹ کے نام پر ناکام بنانے کی طاقت سے لے کر چالاکی تک ہر طرح کا کام کیا گیا۔ اسمبلی میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا دہشت گردی کا جامہ پہنا کر طاقت استعمال کرنے کے لیئے ایکشن پلان اور اسی نوعیت کے خون خوار آپریشن شروع کیئے گیے، جو تاحال بستیوں کی تاراجی میں جاری ہیں۔

اب اگلے الکیشن کا اعلان کیا گیا ہے، تو پاکستان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ ان کو اگر عوام کے ووٹ سے کامیاب نا سہی دنیا کو دکھانے کے لیئے امیدواروں کی زیادہ تعداد کی صورت میں ہی دکھادے۔ اس لیئے الیکشن کے لیئے کرایہ داروں کی بڑی تعداد سامنے لائی گئی ہے اور ان سے الیکشن فارم فل کرائے گئے ہیں، جو قبل ازیں کبھی نا ہوا تھا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر حلقے میں زیادہ سے زیادہ امیدواروں کی فہرست مرتب کی گئی، جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ دنیا پر بلوچ تحریک کی ناکامی ثابت کیا جائے حالانکہ پاکستان جانتی ہے کہ بلوچ عوام کی اکثریت ووٹ اور الکیشن سے اسی طرح متنفر ہے جیسا کہ پاکستان سے بطور قابض ریاست نفرت کرتے ہیں۔

یہ الیکشن اور اس میں حصہ لینے والےتمام زرخرید پٹھو پاکستانی پروپگینڈے کو کامیاب بنانے کی جستجو میں ہیں کہ قابض ریاست کے ساتھ عوام کی عداوت میں کمی آئی ہے جو 2013 کو تھی۔

جب تک ان انتخابات کو ہر صورت ناکام یا طاقت کے استعمال سے سبوتاژ نہ کیا جائے، اس کامیابی کو بحر صورت بلوچ عوام کے حقیقی آواز یعنی قومی آزادی کی تحریک کے بر خلاف استعمال کرنے میں ریاست کامیاب ہوگی اور اپنی قبضہ گیریت کو دوام دینے میں بھی ۔