کوتاہیوں کا تدارک ایک امرِ لازم – عبدالواجد بلوچ

233

کوتاہیوں کا تدارک ایک امرِ لازم

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

یہ سچ ہے کہ ہر شے خواہ وہ کسی بھی دنیاوی جنس سے تعلق رکھتا ہو، اسکے ہر عمل کا فیصلہ وقت کریگا، کسی کے لیئے وقت ظالم ہوتا ہے اور کسی کے لیئے مسیحا۔ یہ قدرت کا کھیل ہے، جس سے انکار یا روگردانی ممکن نہیں وقت کے ساتھ ساتھ ہر شے کی وابستگی اس کی اپنی تاریخ سے ہوتی ہے اور تاریخ وقت کو لیکر ان فیصلوں کو ان حرکات و سکنات کو دیکھ کر منصف کا کردار نبھاتی ہے اور منصف ہر شے کے کردار کو دیکھ کر اس کے لئے اپنا فیصلہ سناتاہے۔ اب وہ بات الگ ہے کہ فیصلہ کس کے حق میں ہوتا ہے اور کس کے خلاف۔ اس پورے پیراہے سے سوچنے اور سمجھنے کے بعد غور و فکر کرنے کے بعد، ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ انسان بہت جلد باز ہے، اس کو ہرچیز کا رزلٹ وقتی چاہیئے ہوتی ہے، اس عمل سے کبھی کبھی ایسے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کا ازالہ ناممکنات میں شامل ہوتا ہے۔ ویسی بھی یہ اٹل و منطقی امر ہے کہ کسی بھی انسان کے بارے میں دوسرا انسان اپنا آخری فیصلہ دے ہی نہیں سکتا کیونکہ انسان اور اس کی سوچ اس عمل کا حصہ ہیں جو تغیر پذیر ہوتے ہیں، اس تغیراتی عمل کا آخری نتیجہ انسان کی موت پر منتج ہے کیونکہ موت انسان کے ہر اس عمل کا روک تھام کرتا ہے، جن سے یا وہ تاریخ کے پنوں پر دوبارہ زندہ رہتا ہے یا پھر ایسے گمنام ہوتا ہے کہ اس کا نام لینے والا کوئی بھی نہیں ہوتا اور یہ بھی کہیں دکھائی دیگا کہ مثبت و منفی اعمال کے تناظر میں اسے اچھے یا برے الفاظ سے یاد رکھا جاسکتا ہے۔

مذکورہ بالاتمام سطور میں ہم اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کا آج بلوچ قومی تحریک برائے آزادی حوالے گہرا تعلق ہے، اسی جلد بازی کی وجہ سے بلوچ سیاست میں ایسے نشیب و فراز آئے کہ جنکا تدارک ہر گذرتے وقت کے ساتھ مشکل بنتا جارہا ہے کیونکہ سرسری معاملات اور پیچیدہ سیاسی طریقوں کو دنیائے عالم کے ساتھ جوڑنے اور ان معاملات کو ایک بہتر فریم ورک مہیا کرنے کے عوض چند ایسی دوریاں پیدا کی گئیں جن سے اعتماد بھروسہ و بالخصوص اعتماد سازی کی فضا درہم برھم ہوگئی، وقت سے پہلے ایک دوسرے کی کردار کو لیکر وہ فیصلے سنائے گئے جس سے تاریخ جو کہ از خود منصف کا کردار نبھارہا ہے وہ حیران پریشان کہ یہ لوگ وکیل خود ہیں اور منصف بھی خود، اب کون کس کو انصاف فراہم کریگا یہ عجیب شکل اختیار کرگیا ہے۔

کامیاب سیاست خواہ وہ کسی ملک کے داخلی مسئلوں پر ہو یا کہ کسی قوم کے بقاء یا سرزمین کی آزادی پر جب تک اس کی بنیادی محرکات و وجوہات کو جانے پرکھے بغیر فیصلہ سنانا، ان پیچیدہ معاملات کو جنم دیگا، جس کا سامنا آج بلوچ قومی تحریک کررہا ہے. ادارہ سازی، مضبوط حکمت عملی، وقت کے بدلتے رجحانات اور دنیائے عالم سے جڑے وہ معاملات جن کے بدولت دنیا مجبور ہے کہ اپنی بنائی گئی سو سالہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اور سامراجی طاقتوں کو کمزور اقوام کے وسائل بارے ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کو جس طرح بھانپ کر سمجھ کر عالمی سیاست کی سیڑھیوں پر چھڑنے کے لیئے اور ان کو بلوچ تحریک بارے ایک فریم ورک فراہم کرنے کے لیئے ہر بلوچ سیاسی لیڈر کےلیئے ضروری ہے کہ وہ مضبوط اداروں کے حصے بن جائیں تاکہ دنیا کو ایک منظم حکمت عملی کے تحت بلوچ بارے سمجھایا جاسکے یقیناً بغیر ادارے کے اپنا الگ شناخت بنا کر بلوچ کاز کے لئے کام کرنا مشکل امر ہوگا۔ اسی لئے تو بلوچی کا ایک ضرب المثل ہے کہ “یکیے پتّر ءَ گوات بارت”ہمارا الگ رہنا اور کام کرنا اداروں کی طرف رجوع نہ کرنا، اداروں کو مضبوطی کی جانب نہ لیجانے والی عمل سے یقیناً کچھ حد تک ریاست فائدہ اٹھا چکا ہے اور دوسری جانب ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے سوشل میڈیا میں غیروں نے وہ ماحول بنایا جس سے آج صورت حال ایسا ہے کہ ہم ایک بھنور میں پھنس چکے ہیں اور ہر کوئی جان چھڑانے کی کوشش کررہا ہے.

کہنے کا مقصد یہی ہے کہ سیاسی و قومی معاملات میں اتنے غیرمستقل مزاج نہ بنا جائے کہ تمام راستے بند ہوں جس سے واپسی کو ناممکنات میں تصور کیا جائے. اشتاپ کاری اور جلدبازی سے معاملات بگڑتے ہیں نہ کہ بنتے. اب ہر فرد کو اس چیز کا احساس ہے، اب بھی وقت نے کروٹ نہیں بدلی حالات کو ایک بار پھر اپنے قابو میں کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ پیچیدہ معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے “حقیقی اور غیر حقیقی قوتوں کا پہچان وقت کی ضرورت بن چکی ہے”. جس طرح ماضی و حال میں رونماء ہونے والی کوتاہیوں غلطیوں سے تحریک ایک کٹھن دوراہے پر کھڑا ہے اور پچھلے کوتاہیوں کی وجہ سے ہمارا راستہ بند گلی میں آکر رک گئی ہے۔

ان محرکات اور اسباب کو سمجھنے اور ان پر بحث کرنے، ان کی وجوہات جاننے کی اشد ضرورت ہے اور موجودہ وہ کونسی وجوہات ہیں، جو ہمیں بحیثیت مجموعی قوم اس جانب ہی سوچنے نہیں دیتیں کہ ان پیچیدہ معاملات کا سدباب کرسکیں، جو نہیں ہورہے۔ قومی تحریک سے جڑے ہر فرد کو یہ چاہیئے کہ آج ہی اس امر پر سوچ و بچار کرکے غور و فکر کے ان تمام لوازمات کو دیکھیں کہ جس سے پیچیدہ مسائل حل کی جانب بڑھیں اور واپسی کے تمام راستے کھل جائیں اور ان معاملات کو بحث کیا جائے وجوہات بیان کیئے جائیں، جس سے بگاڑ پیدا ہوئی تھی.کوتاہیوں کو ماننا بزدلی نہیں بہادری ہےاور اس عمل کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے کہ وقت سے پہلے کسی کے بارے میں فیصلہ سنانا کہ فلاں ایسا ہے، فلاں ایسا والا رویہ راجی سیاست و جہد کے شایان شان نہیں۔